۔ُعلما پر کسبِ دنیا نہ کرنے سے جو الزام ہے اس کا جواب: اور فرضِ کفایہ یہ کہ ہر جگہ ایک دو آدمی ایسے ہونے چاہییں جو اہلِ بستی کی دینی ضرورتوں کو رفع کرسکیں اور مخالفینِ اسلام کے شبہات و اعتراضات کا جواب دے سکیں۔
ایقاظ: یہ بات تجربے سے ثابت ہوتی ہے کہ کسی شئے میں پورا کمال بدوں کمالِ اشتغال کے حاصل نہیں ہوتا، اور کمالِ اشتغال بدوں قطعِ تعلقات و حصولِ یکسوئی کے میسر نہیں ہوتا، سو علومِ دینیہ میں تبحر اور اس کی پوری طور سے خدمت کرنی دوسرے اشتغال کے ساتھ عادتاً محال ہے۔ سو اکثر نادان ابنائے زمان کا ۔ُعلمائے دین پر یہ اعتراض کہ یہ لوگ اور کسی کام کے نہیں، کس قدر کم فہمی کی دلیل ہے۔
سہل طریقے حصولِ علمِ دین کے عوام کے لیے: تحصیلِ علم جو فرضِ عین ہے اس کے لیے عربی زبان کی تحصیل ضروری نہیں بلکہ فارسی یا اُردو میں مسائل و عقائد کا سیکھنا کافی ہے۔ لوگوں
کو چاہیے کہ کم از کم اپنے بچوں کو اتنا علمِ سکھلا دیا کریں کہ دو چار نسلوں کے بعد شاید دین سے ایسی اجنبیت نہ ہوجاوے کہ دین و اسلام کے انتساب سے بھی عار آنے لگے۔ خدا کے لیے اس طوفانِ بد تمیزی کے روکنے کی فکر کرو۔ اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے اُردو، فارسی پڑھنا بھی نہ آتا ہو تو ۔ُعلما کی صحبت میں اپنے عقائد و مسائل کی تصحیح کرلے اور اولاد کو بھی تاکید کرے کہ روز مرہ یا تیسرے چوتھے روز دس پندرہ منٹ کے لیے کسی خوش عقیدہ متقی محقق عالم کی صحبت سے فیض اُٹھایا کریں، صحبت کے عجیب منافع و برکات ہیں:
ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا
گو نشیند در حضورِ اولیا
یک زمانہ صحبتے با اولیا