بدیہی ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی صفت اختیارِ مخلوق ہے اور ہر مخلوق کا سلسلہ خالق تک پہنچتا ہے، تو ضرور اس کا اختیار کسی کے اختیار کے ماتحت ہوگا، یہ مرتبہ بے اختیاری کا نکلا۔ پس بندہ نہ پورا مجبور ہے، نہ پورا مختار ہے، یہی خلاصہ ہے مسئلۂ تقدیر کا، اور اس قدر سمجھ لینے میں نہ کوئی دِقت ہے نہ کوئی اِشکال، اور اسی قدر سمجھنے کا ہم کو بھی حکم ہے، اس سے آگے نہ ہمارے سمجھنے کے لائق تھا، نہ ہم کو اس کے سمجھنے کا حکم ہوا، بلکہ زیادہ تفتیش کرنے کی ممانعت ہوئی، کیوںکہ اس کے لیے تبحرِ علومِ عقلیہ و نقلیہ و کشف کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے ہوتے ہوئے بھی حل ہونے میں تردّد سا معلوم ہوتا ہے۔ اور عوام کے بعض شبہات کا جواب جو اس مسئلے سے متعلق ہیں رسالہ ’’جزاء الاعمال‘‘ کے خاتمے میں ذکر کیے گئے ہیں، ان کا دیکھ لینا ضروری ہے۔
فصل: شیخین ؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ ایمان کی حلاوت پاتا ہے، اللہ اور رسولﷺ اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں، اور جس سے محبت کرے اللہ ہی کے واسطے کرے اور کوئی وجہ نہ ہو‘‘۔ ابوداود و ترمذی ؒ نے روایت کیا کہ ’’اس کے واسطے محبت اور بغض رکھنا ایمان سے ہے‘‘۔
اللہ اور رسولﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھنے کا واقع ہونا: شاید کسی کو تعجب ہو کہ اللہ و رسولﷺ کا سب سے زیادہ محبوب ہونا کیسے ممکن ہے؟ اور اگر ممکن ہے تو شاید دنیا بھر میں دو چار ہی ایسے ہوں گے، تو سارا جہان ایمان سے بے نصیب ہی ٹھہرا۔ اس کا جواب محققین نے مختلف طور پر دیا ہے، مگر احقر کے نزدیک تو ادنیٰ درجے کے مسلمان کو بفضلہ تعالیٰ یہ دولت حاصل ہے۔1 امتحان اس کا یہ ہے کہ یہ جس کے ساتھ سب سے زائد محبت رکھتا ہے مثلاً: بیٹا، بیوی، اگر یہ لوگ اس شخص کے رُو برو اللہ و رسولﷺ کی شان میں کوئی سخت گستاخی کریں تو ہرگز اس شخص کو تاب نہ رہے گی، جو کچھ اس کے امکان میں ہوگا انتقام لینے میں کوئی بات اُٹھا نہ رکھے گا، اگر اللہ ورسولﷺ کے ساتھ اس درجے کی محبت نہیں تھی یہ جوش کہاں سے پیدا
ہوا؟ اور اس محبوب کی محبت کیسے مضمحل و مغلوب ہوگئی؟ پس معلوم ہوا کہ اللہ و رسولﷺ کے ساتھ اس درجے کی محبت ہر مسلمان کو میسر ہے۔ الحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔