تمہارے قبضے سے تو نکل ہی جاتا ہے مگر اطمینان ہوتا ہے کہ معتبر جگہ ہے۔ نفع بڑھتا رہتا ہے۔ اسی طرح صاحبِ ایمان کو خدا وند جل شانہٗ کے وعدوں پر اعتماد کرکے سمجھنا چاہیے کہ وہاں جمع ہو رہا ہے اور قیامت کے دن اصل مع منافع کے ایسے موقع پر ملے گا کہ اس وقت بہت ہی سخت ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ حفاظتِ مال کے واسطے چوکیدار، نوکر رکھتے ہو، اس کو تنخواہ دینی پڑتی ہے، باوجودے کہ یہ مقدار گھٹ جاتی ہے مگر اس ڈَر سے کہ تھوڑی بچت کے واسطے کہیں سارا روپیہ چوری نہ ہوجائے، یہ رقم صَرف کرنا گوارا کرتے ہو، اسی طرح زکاۃ کے ادا کرنے کو مال کا محافظ سمجھو۔ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ نہ دینے سے مال ہلاک ہوجاتا ہے۔
چناںچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہﷺ سے، آپﷺ فرماتے تھے کہ ’’نہیں مخلوط ہوتی زکاۃ کسی مال میںکبھی، ہلاک کردیتی ہے وہ اس مال کو‘‘۔ روایت کیا اس کو شافعی اور بخاری ؒ نے اپنی تاریخ میں، اور حمیدی ؒ نے اور اس قدر انھوں نے اور زیادہ کہا ہے کہ ’’تجھ پر زکاۃ واجب ہوئی اور تو نے اس کو نہ نکالا ہو سو یہ حرام اس حلال کو ہلاک کر ڈالتا ہے‘‘۔ سو وہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے اس کو چوکیداروں کی تنخواہ ہی سمجھ لیا کرو، پھر یہ کہ کوئی ایسا شخص نہیں جس کو کچھ نہ کچھ حاجت مندوںکے لیے خرچ کرنا پڑتا ہو، کاش! اگر حساب کرکے خرچ کریں تو زکاۃ سہولت سے ادا ہوجائے۔
صدقۂ فطر: ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوںنے آخر رمضان میں فرمایا: ’’اپنے روزے کا صدقہ نکالو، رسول اللہﷺ نے یہ صدقہ ۔ّمقرر فرمایا ہے۔ ایک صاع ۔َخرما ہو یا ۔َجو، یا نصف صاع گیہوں ہر شخص پر خواہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا‘‘۔1 (1 ابوداود ، نسائی)
اور ان ہی سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے صدقۂ فطر کو اس واسطے ۔ّمقرر فرمایا ہے کہ روزے لغو اور فحش سے پاک ہوجائیں اور غریبوں کو کھانے کو ملے‘‘۔ 1 (1 ابوداود )
صدقۂ فطر کے مفصل مسائل کتبِ فقہ سے لینا چاہییں۔
مال میں علاوہ زکاۃ اور بھی حقوق ہیں