۱۵۔ جھوٹ بولنا، البتہ جہاںضرورتِ شدیدہ ہو اور دوسرے کی حق تلفی نہ ہوتی ہو وہاں اجازت ہے۔
۱۶۔ غیبت، یہ سب سے بڑھ کر ہم لوگوں کی غذا ہو رہی ہے اور اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں: ’’ہم تو سچ کہہ رہے ہیں، پھر غیبت کہاں ہوئی؟‘‘ یہ شبہ بالکل مہمل ہے، کیوںکہ غیبت تو جب ہی ہے جب وہ بات سچ ہو، ورنہ بہتان ہے۔ البتہ جس شخص سے کسی کو دینی یا دنیوی مضرت پہنچنے کا اندیشہ ہے اس کا حال بیان کردینا جائز ہے۔
۱۷۔ چغل خوری کرنا، ہر گروہ میں جا کر اس کی سی باتیں بنا دینا۔
۱۸۔ کسی کے منہ پر اس کی تعریف یا خوشامد کرنا، البتہ اگر اس کی تعریف سے مخاطب کو خود بینی پیدا نہ ہو بلکہ اَمرِ خیر کی اور زیادہ رغبت پیدا ہوجاوے تو مضایقہ نہیں۔
۱۹۔ بول چال میں باریک غلطیوں کا لحاظ نہ رکھنا۔ مثلاً: اکثر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ’’اُوپر خدا نیچے تم‘‘ ۔ُبری بات ہے، اس میں شبہ مساواتِ خالق و مخلوق کا ہوتا ہے۔
۲۰۔ ۔ُعلما سے ایسے سوالات کرنا جن سے اپنی کوئی ضرورت متعلق نہیں۔
طریق حفظِ لسان: علاج اس کا یہ ہے کہ جب کوئی بات کہنے کا ارادہ ہو تو بے تأمل نہ کہہ ڈالے، کم از کم دو تین سیکنڈ یہ سوچ لے کہ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں میرے مالکِ حقیقی کو ناخوش کردینے والی تو نہیں ہے، اگر پورا اطمینان ہو تو بولنا شروع کرے مگر ضرورت کے موافق، اور اگر ذرا بھی خلجان ہو تو خاموش رہے، ان شاء اللہ تعالیٰ سہولت سے سب آفات سے بچ جائے گا۔ شیخ سعدی ؒ کیا خوب فرماتے ہیں:
مزن بے تأمل بگفتار دم
نکو گوئی گر دیر گوئی چہ غم
اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔
الحمد للہ کہ اس مقام پر وہ شعبے جو زبان سے متعلق ہیں ختم ہوئے۔
بابِ سوم: