جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے
کبھی یہ حالت دائمی ہوتی ہے، کبھی زائل ہوجاتی ہے، ان شاء اللہ بشرطِ خیریت کسی موقع پر اس مسئلے کی زیادہ تحقیق کی جائے گی۔ اس مقام پر صرف خیر خواہانہ یہ عرض کرکے بس کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنی جان پر اور اُمتِ محمدیہ پر رحم فرمایئے اور اس مسئلے میں غلو سے بچئے، بلکہ احتیاط یہ ہے کہ بعد کشف کے بھی اس کو قطعی نہ سمجھئے، کیوںکہ کشف میں، خصوصاً کشفِ الہٰیات میں بعض اوقات لغزش ہوجاتی ہے، جو اصل مقصود ہے، یعنی عبودیت، اس میں لگے رہیے اور زبانی جمع خرچ کو الگ پھینکیے، کارکن کار، بگذر از گفتار:
قدم باید اندر طریقت نہ دم
کہ اصلے ندارد دمے بے قدم2
اقسامِ شرک: تتمیمِ شرک کی دو قسمیں ہیں: شرک فی العقیدہ اور شرک فی العمل۔
شرک فی العقیدہ یہ ہے کہ غیر اللہ کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے، یہی شرک ہے جس کی نسبت ارشاد ہوا ہے۔
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَـا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُط}3
بے شک اللہ نہ بخشیں گے ا س کو کہ ان کے ساتھ شرک کیا جاوے، اور بخش دیں گے اس سے کم جس شخص کے لیے چاہیں گے۔
شرک فی العمل یہ ہے کہ جو معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرنا چاہیے وہ غیر اللہ کے ساتھ کیا جائے۔ اس شرک میں اکثر عوام بالخصوص مستورات کثرت سے مبتلا ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے سوا
کسی کی قسم کھانا، کسی کی ۔ّمنت ماننا، کسی چیز کو طبعاً مؤثر سمجھنا، کسی کے رُو برو سجدۂ تعظیم کرنا، سوا بیت اللہ کسی اور چیز کا طواف کرنا، کسی قبر پر تقریباً کچھ چڑھانا، کسی سے یہ کہنا کہ اُوپر خدا نیچے تم، اسی طرح کے ہزاروں افعال ہیں، یہ افعال سخت معصیت ہیں، مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے گھروں میں اس کا پورا انسداد کریں۔
قال اللّٰہ تعالٰی: