خوف: اصفہانی نے ’’ترغیب‘‘ میں معاذ ؓ سے روایت کیا ہے کہ’’ ایمان والے کا دِل بے خوف نہیں ہوتا، اور اس کے خوف کو کسی طرح سکون نہیں ہوتا‘‘۔
خوف پیدا کرنے کا طریقہ: طریقہ خوف پیدا کرنے کا یہ ہے کہ ہر وقت یہ خیال رکھے کہ اللہ تعالیٰ میرے تمام اقوال و احوالِ ظاہری و باطنی پر ہر وقت مطلع ہیں اور مجھ سے باز ۔ُپرس کریں گے۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’بندے کی فضیلت ایمان سے یہ ہے کہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہیں وہ جہاں کہیں بھی ہو‘‘۔2
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الکٰفِرُوْنَO}2
بے شک نہیں نا اُمید ہوتے اللہ کی رحمت سے مگر وہ لوگ جو کافر ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اُمید رکھنا جزئِ ایمان ہے۔ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’نیک گمان رکھنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ عبادت سے ہے‘‘۔3
اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھنے کا عمدہ طریقہ: یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان اور اُمید رکھنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ اس کی پوری اطاعت کی کوشش کرے، یہ طبعی بات ہے کہ جس کی اطاعت کی جاتی ہے اس سے سب طرح کی اُمیدیں رہتی ہیں، اور نافرمانی سے ضرور دِل کو وحشت اور نا اُمیدی سی ہوجاتی ہے، اور توبہ کرنے کے وقت اُمید رکھنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کی وسعتِ رحمت پر نظر کرکے یقین کرے کہ میرا عذر ضرور قبول ہوجائے گا، مقصود شارع ؑ کا اَمر رجا سے بھی دو اَمر معلوم ہوتے ہیں: ایک اصلاحِ عمل، دوسرے توبہ۔
آج کل اکثر لوگ گناہ میں انہماک اور توبہ میں تاخیر کرنے کے وقت بہانہ حسنِ ظن واُمید ِ نیک کا لایا کرتے ہیں، ان لوگوں نے مقصودِ شارع ؑ بالکل منعکس کردیا، اللہ تعالیٰ فہمِ سلیم عطا فرما ویں، بلکہ رحمتِ الٰہیہ کی وسعت دریافت کرکے تو زیادہ شرمانا چاہیے کہ اللہ اکبر: