وفائے نذر: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص نذر کرے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اطاعت کرنا چاہیے، اور جو نذر کرے کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو نافرمانی نہ کرے‘‘۔ 1 (1 بخاری)
یعنی جو نذر موافق شرع کے ہو اس کو پورا کرے، اور جو شرع کے خلاف ہو اس کا پورا کرنا جائز نہیں، مثلاً: کسی نے منّت مانی کہ میرا بیٹا اچھا ہوجائے تو ناچ کا جلسہ کروں گا، یہ بے ہودہ نذر ہے، اس کا پورا کرنا جائز نہیں۔
بعضے مروّج اور ممنوع نذریں: اسی طرح اس زمانے میں بہت سے اُمورِ مکروہ و بدعت کی نذر مانی جاتی ہے، عوام بالخصوص مستورات اس میں زیادہ مبتلا ہیں۔ امام حسین ؓ کا فقیر بنانا، کسی کے نام کی چوٹی رکھنا یا بالی پہنانا، کسی مزار پرغلاف بھیجنا، شیخ سدو کا بکرا کرنا، خدائی رات کرنا، جیسی آج کل ہوتی ہے، مشکل کشا کا روزہ رکھنا اور بہت سی واہی تباہی باتیں مشہور ومعروف ہیں جن کی شریعت میں کچھ بھی اصل نہیں، بلکہ کلیتاً یا جزئیتاً ممانعت آئی ہے۔ بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض پڑھے لکھے لوگ ان رُسوم کے حامی و ناصر ہیں بالخصوص شیخ سدو کے بکرے کو حلال و ۔ّطیب سمجھنے والے تو بہ کثرت ہیں۔
صاحبوا! قرآنِ مجید میں صاف لفظ {وَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِج} موجود ہے، إہلال عربی لغت ہے، کتبِ لغت میں دیکھنا چاہیے، ۔ّحلت و حرمت مسئلۂ فقہیہ ہے، کتبِ فقہ ’’درمختار‘‘ وغیرہ میں ملاحظہ فرمانا چاہیے، اور إہلال کی بعض تفاسیر میں جو ذبح کے ساتھ تفسیر کی ہے بہ اعتبار عادت اس زمانے کے ہے، بعض آیات میں جو تحریم سے نہی آئی ہے وہ بمعنی ارتکاب سببِ حرمت ہے، نہ اعتقادِ حرمت، فافہم۔
حفظِ یمین و آدابِ آں: فرمایا اللہ جل شانہٗ نے: {وَاحْفَظُوْآ اَیْمَانَکُمْط} یعنی سنبھالا کرو اپنی قسموں کو، حفظِ قسم میں کئی چیزیں آگئیں:
اوّل: یہ کہ غیر اللہ کی قسم نہ کھائے۔ چناںچہ ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہﷺ سے فرماتے تھے: ’’جو شخص غیر اللہ کی قسم کھائے وہ مشرک ہوجاتا ہے‘‘۔
مراد مشرکِ عملی ہے، یعنی یہ مشرکوں کا عمل ہے۔ اکثر آج کل بیٹے کی باپ قسم کھایا کرتے ہیں، اس سے بہت احتیاط چاہیے، یا بعض لوگ یوں قسم کھاتے ہیں کہ ’’اگر میں جھوٹاہوں تو ایمان مجھ کو نصیب نہ ہو‘‘ اس کی بھی سخت ممانعت آئی