قرض دینا: ابنِ ماجہ میں حدیث ہے کہ ’’صدقہ دینے سے دس گنا ثواب ملتا ہے، اور کسی کو قرض دینے سے اَٹھارہ گنا ثواب ملتا ہے‘‘۔ وجہ اس کی ایک تو یہ ہے کہ صدقہ تو بدوں حاجت بھی مانگ لیا جاتا ہے اور قرض حاجت مند ہی مانگتا ہے۔ دوسری یہ کہ صدقہ دے کر بے فکری ہوجاتی ہے، قرض دے کر اس کی طرف التفات اور تعلق لگا رہتا ہے اور دیر میں وصول ہونے سے خصوصاً اپنی حاجت کے وقت وصول نہ ہونے پر سخت کلفت ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کا ثواب زیادہ ہے۔
نکتہ: اَٹھارہ میں یہ ہے کہ اصل میں اس کا ثواب صدقہ سے مضاعف ہے، یعنی صدقہ میں ایک روپیہ کا ثواب برابر دس روپیہ کے ملتا ہے تو اس میں ایک ایک کی جگہ دو دو ملتے ہیں، تو کل بیس روپیہ ہوئے، لیکن چوںکہ اس نے اپنا روپیہ وصول کرلیا، دو روپیہ اس میں گھٹ کر اَٹھارہ رہ گئے، واللّٰہ أعلم بحقیقۃ الحال۔
مدارارتِ ہمسایہ: فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہو اپنے پڑوسی کو نہ ستائے‘‘۔ 1 (1 بخاری و مسلم)
اور فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’احسان کرو اپنے پڑوسی سے، ہوجاؤگے تم ایمان والے‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
اور ایک حدیث میں وارد ہے کہ ’’یہ بات حلال نہیں کہ خود پیٹ بھر کر کھالیوے اور پڑوسی بھوکا پڑا رہے‘‘۔
حسنِ معاملہ: فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’تاجر لوگ قیامت کے دِن فاجر ہو کر اُٹھائے جائیں گے مگر جس نے اللہ کا خوف کیا اور پاک معاملہ کیا اور سچ بولا‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورﷺ پر تقاضا کسی حق کا کیا اور بہت سختی کی، آپﷺ کے صحابہ ؓ نے اس کی تنبیہ کا ارادہ کیا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کو کچھ مت کہو، اس لیے کہ حق دار کو کہنے کا حق ہے، اور اس کے لیے ایک اُونٹ خرید دو‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا: اس کے اونٹ سے اچھا ملتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہی خرید کردو، پس بے شک تم سب میں اچھا وہ شخص ہے کہ دوسرے کا حق اچھی طرح ادا کرے‘‘۔ 1 (1 بخاری و مسلم)