اس سے ظاہر ہے کہ ان کو اس کا نہایت اہتمام ہے، اس کے طرح طرح کے طریقے سوچ سوچ کر تعلیم فرماتے ہیں۔ یہ ذکر اوّل زبانی ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ خود قلب میں اثر پہنچتا ہے اس سے بالطبع اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے، اس سے بے تکلف اِطاعت ہونے لگتی ہے، اور جو جو آثار و احوال پید اہوتے ہیں، کرنے والے کو خود معلوم ہوجائے گا۔
غرض ذکر اللہ عجیب چیز ہے، کسی شیخِ کامل سے اس کا طریقہ دریافت کرکے کم و بیش ہر شخص کو اس کام کا اہتمام ضروری ہے۔
استغفار: ذکر اللہ میں اِستغفار بھی داخل ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ
نے: ’’قسم خدا کی! میں اِستغفار کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں ایک دن میں ۔ّستر مرتبہ سے زیادہ‘‘۔1
ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص لازم کرلے اِستغفار کو اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے نجات کی سبیل اور ہر فکر و غم سے کشادگی کردیں گے، اور اس کو ایسی جگہ سے روزی پہنچاتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔2
لغو اور ممنوع کلام سے بچنا: سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص ذ۔ّمہ دار ہوجائے میرے واسطے اس چیز کا جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور جو اس کی ٹانگوں کے بیچ میں ہے یعنی شرم گاہ، میں اس کے لیے ذ۔ّمہ دار ہوں بہشت کا۔3
عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ سے ملا، پس میںنے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہارا گھر تمہارے گنجایش والا ہونا چاہیے، یعنی گھر سے بلا ضرورت مت نکلو اور اپنی خطا پرر وتے رہو‘‘۔4
آفاتِ زبان: من جملہ آفاتِ عظیمہ کے زبان کی آفت ہے کہ بہ ظاہر نہایت خفیف ہے اور حقیقت میں نہایت ثقیل۔