کا مالک، کسی مجمع کا افسر، وہ ہاتھ سے مٹا ڈالے۔ جو زبان سے روک سکے جیسے: واعظ، ناصح یا جس کی بات چلتی ہو، وہ زبان سے کہے ورنہ خاموشی بہتر ہے، فتنہ و فساد سے کیا فائدہ، بس دِل سے اس کو ۔ُبرا جانے اور اگر دِل سے بھی نفرت نہ ہو تو ایمان کا خدا ہی حافظ ہے۔ واجب تو اتنا ہی ہے، باقی اگر کسی شخص کو ۔ّہمت ہو اور باوجود خوف کے پھر بھی تمام مصائب و تکالیف کی برداشت کرسکے تو بہت بڑی اولو العزمی ہے، قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِO}
اقامتِ حدود: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’قائم کرنا ایک حد کا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے بہتر ہے چالیس دن کی بارش سے اللہ تعالیٰ کے ملک میں‘‘۔ 1 (1 ابنِ ماجہ)
اور ارشاد فرمایا: ’’قائم کیا کرو حدود اللہ کو اپنوں میں اور غیروں میں، نہ پکڑے تم کو اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت‘‘۔ 1 (1 ابن ماجہ)
’’حدود‘‘ وہ سزائیں ہیں جو شریعت میں بعض معاصی پر ۔ّمقرر ہیں، ان میں کسی کی رعایت جائز نہیں۔ وہ مثل نماز روزہ کے فرض ہیں، اس میں ۔ّتصرف کرنا جیسے نماز روزہ میں ۔ّتصرف کرنا۔ اور جن افعال پر سزا ۔ّمقرر نہیں اس میں سزا دینا ’’تعزیر‘‘ ہے، یہ حاکم کی رائے پر ہے، اس میںکمی کرنا کسی مصلحت سے رعایت و در گزر کرنا جائز ہے بلکہ بعض مواقع میں بہتر ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے۔
اشاعتِ دین: اشاعتِ دین کرنا، اور اس کی فضیلت میں بہ کثرت احادیث وارد ہیں۔
ادائے امانت: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’ایمان نہیں جس میں صفتِ امانت داری نہیں‘‘۔ 1 (1 مسندِ احمد)
اور طبرانی نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ’’خیر خواہی کرو علم میں، کیوںکہ علم میں خیانت کرنا مال میں خیانت کرنے سے سخت ہے‘‘۔ یعنی کسی کو علم میں دھوکا مت دو، غلط بات مت بتلاؤ، جو نہ آتی ہو کہہ دو کہ ہم نہیں جانتے۔