خوب مل جل کر قرآن کو متروک کردیا ہے۔ ڈرنا چاہیے کبھی قیامت کے روز رسول اللہﷺ یوںنہ فرماویں:
{یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًاO}2
اے میرے پروردگار! بے شک میری قوم نے ٹھہرالیا تھا قرآنِ مجید کو ایک چھوڑی ہوئی چیز۔
علم سیکھنا: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھلائی منظور ہوتی ہے اس کو دین کا علم اور سمجھ عنایت فرماتے ہیں‘‘۔3 اور ارشاد فرمایا کہ ’’طلب کرنا علم کا فرض ہے ہر مسلمان پر‘‘۔4
علم سکھانا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو شخص پوچھا جاوے کوئی علم کی بات، پھر وہ اس کو چھپا لیوے، لگام سدے گا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آگ کی لگام‘‘۔5
ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے سب فرشتے اور آسمان والے اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی دعائے خیر کرتی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو خیر کی یعنی دین کی تعلیم دیتا ہو‘‘۔6
فضائلِ علمِ دین و اقسامِ علمِ مفروض: یہ جو فضائل تعلیم و تعلّم کے وارد ہیں یہ سب علومِ دینیہ کے ساتھ خاص ہیں یا جو علوم ان علوم کے خادم ہیں، اور جو فنونِ دینیہ میں کچھ دخل نہیں رکھتے یا دخل رکھتے ہوں مگر ان کو خدمتِ علمِ دین کا ذریعہ نہ بنایا جائے، تمام عمر اِن ہی خرافات میں پھنسا رہے، ان کو ان فضائل سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ ایسے علوم کی شان میں وارد ہوا ہے کہ بعض علم بھی جہل ہے، شیخ فرماتے ہیں:
علمیکہ رہ بحق نہ نماید جہالت است1
اور اس علمِ دین میں دو مرتبے ہیں: ایک فرضِ عین، دوسرا فرضِ کفایہ۔ فرضِ عین تو وہ ہے جس کی ضرورت واقع ہوئی ہو، مثلاً: نماز سب پر فرض ہے تو اس کے اَحکام کا جاننا بھی سب پر فرض ہے،زکاۃ مال داروں پر فرض ہے اس کے اَحکام جاننا بھی ان ہی پر فرض ہوگا، علیٰ ہذا القیاس جو حالت ہوتی جاوے اس کے اَحکام کا سیکھنا فرض ہوتا جاوے گا۔