والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا‘‘۔2
اور نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’مسلمانوں کو ایک دُوسرے کی ہمدردی اور محبت اور عطوفت میں اس طرح پاؤ جیسے بدن میں عضو اگر دُکھتا ہے تو تمام بدن بد خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔3
رضا بالقضا: فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’آدمی کی سعادت میں سے ہے خیر مانگنا اللہ تعالیٰ سے اور راضی ہونا اس پر جو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا، اور آدمی کی شقاوت میں سے ہے ترک کرنا خیر مانگنے کو اور ناخوش ہونا اللہ کے حکم پر‘‘۔4
ف: رضا بالقضا کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ دِل میں بھی رنج نہ آنے پائے، رنج تو اَمرِ طبعی ہے، یہ کس طرح اختیار میں ہوسکتا ہے؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دِل اس کو پسند کرے، جیسے: دنبل والا خوشی سے جراح کو نشتر مارنے کی اجازت دیتا ہے مگر دُکھ ضرور ہوتا ہے، ہاں! بوجہ غلبۂ حال کے بعض اوقات اَلم محسوس نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات سرور و فرح ہوتا ہے۔ یہ حالت اکثر متوسطین اہلِ سلوک کو پیش آتی ہے، اور اہلِ کمال و تمکین کو رنج و غم سب کچھ ہوتا ہے، پھر بھی نہ کوئی کلمہ شکایت کا منہ سے نکالتے ہیں، نہ کوئی فعل خلافِ مرضی حاکمِ حقیقی کے کرتے ہیں، یہ زیادہ کمال کی بات ہے، باوجود رنج کے اپنے کو ضبط کرتے ہیں، اور جب رنج ہی نہ ہو ضبط کرنا کیا مشکل ہے؟ اور صبر کا تو بدون رنج کے وجود ہی محال ہے۔ حضرت یعقوب علی نبینا و علیہم السلام کے مقامِ صبر و رضا میں کس کو کلام ہوسکتا ہے؟ حضرت یوسف ؑ کے فراق میں جو کچھ ان کا حال ہوگیا تھا سب جانتے ہیں، جب ان کے بیٹوں نے سمجھایا تو آپ
جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
{اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَـا لَا تَعْلَمُوْنَO}1
میں تو صرف اپنی پریشانی اور رنج کا اللہ ہی سے گلہ کرتا ہوں، اور میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے۔
ہمارے حضور ۔ُپر نورﷺ کے صاحب زادہ حضرت ابراہیم ؓ نے جب وفات پائی تو حضورﷺ رونے لگے، عبدالرحمن بن عوف ؓ نے تعّجباً عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (ﷺ) آپ بھی روتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابنِ عوف! یہ تو رحمت ہے‘‘، پھر آپ دوبارہ روئے اور فرمایا: ’’بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دِل غم گین ہوتا ہے اور زبان سے ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا مالک راضی ہو، اور بے شک ہم تمہاری جدائی میں اے ابراہیم! مغموم ہیں‘‘۔2