اور فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’صبر تو جب ہی ہے جب تازہ صدمہ پڑے‘‘۔3
ان حدیثوں کے سننے کے بعد ہمارے دعوائے مذکور میں اب کچھ شک باقی نہ رہا ہوگا۔
توکل: فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
{وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَO}4
اللہ تعالیٰ ہی پر چاہیے کہ توکل کریں ایمان والے۔
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’داخل ہوں گے بہشت میں میری اُمت سے ۔ّستر ہزار آدمی بدون حساب کے، یہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔5
مراد یہ ہے کہ جو جھاڑ پھونک ممنوع ہے وہ نہیں کرتے۔6 اور بعض نے کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ جھاڑ پھونک بالکل نہ کرے، اور بد شگونی یہ کہ مثلاً: چھینکنے کو یا کسی جانور کے سامنے نکل جانے کو منحوس سمجھ کر وسوسے میں مبتلا ہوجاویں۔ مؤثرِ حقیقی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہیں۔ اس قدر
وسوسہ نہ کرنا چاہیے۔ البتہ نیک فال لینا اگرچہ وہاں بھی حقیقتاً کوئی تاثیر نہیں، مگر چوںکہ اس میں رحمتِ خدا وندی سے اُمید ہوجاتی ہے، مستحسن ہے، بہ خلاف بد فالی کے، کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی ہوتی ہے۔
حقیقتِ توکل و رفعِ غلطی: آج کل توکل کے معنی یہ مشہور ہیں کہ تمام اسباب چھوڑ کر بیٹھ جائے، یہ معنی بالکل غلط ہیں، تمام قرآن و حدیث اثباتِ تدبیر و اسباب سے ۔ُپر ہے، بلکہ توکل بایں معنی کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ اچھا! اگر بلا تدبیر کچھ کھانے پینے کو مل بھی گیا تو کیا کھانے میں لقمہ بھی منہ میں نہ رکھوگے؟ اس کو چباؤگے بھی نہیں؟ اس کو نگلوگے بھی نہیں؟ پھر یہ سب بھی تو اسباب و تدابیر ہیں غذا پہنچنے کے، پھر توکل کہاں رہا؟ اس سے تو لازم آتا ہے کہ آج تک کوئی نبی، ولی، متوکل ہوا ہی نہیں، پھر اس کا کون قائل ہوسکتا ہے؟ بلکہ توکل کی حقیقت وہ ہے جو ’’توکیل‘‘ کی ہے، یعنی ۔ّمقدمے میں