۱۔ کفارۂ یمین: ’’کفارہ‘‘ قسم کو کہتے ہیں، یعنی اگر قسم ٹوٹ جائے تو یا دس مسکین کو کھانا دو وقت پیٹ بھر کر کھلاوے یا ان کو ایک ایک جوڑا کپڑا دے دے یا ایک غلام آزاد کردے، ان تینوں میں اختیار ہے کہ جو چاہے ادا کرے، جب ان تینوں اَمر سے عاجز ہو اور قدرت نہ رکھتا ہو اس وقت تین روزے لگاتار رکھے۔ اکثر لوگ تین روزوں پر ٹال دیتے ہیں اگرچہ کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہوں، یہ جائز نہیں ہے، اس سے کفارہ ادا نہ ہوگا، اور اگر دس کو فی مسکین نصف صاع گیہوں (جو ۸۰ کے سیر سے پونے دو سیر ہوتے ہیں) یا اس کے دام دے دے تب بھی بجائے کھلانے کے ہے۔
۲۔ کفارۂ قتل: اگر بھول چوک سے کوئی خون ہوجاو ے تو اس میں علاوہ دیت یعنی خون بہا کے جس کے اَحکام و مقدار کتب ِ فقہ میں مذکور ہیں، ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، اور اگر اس پر قدرت نہ ہو تو دو ماہ کے متواتر روزے رکھے، یہ توبہ کی تکمیل کے لیے ہے۔
۳۔ کفارۂ ظہار: اگر بیوی کو اپنے ۔ّمحرماتِ ابدیہ میں سے کسی کے عضوِ محرم کے ساتھ تشبیہ دی جائے اس کو ’’ظہار‘‘ کہتے ہیں، وہ عورت اس پر حرام ہوتی ہے جب تک کفارہ نہ دے۔ کفارہ اس کا یہ ہے کہ اوّل ایک غلام آزاد کردے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دو ماہ لگاتار روزے رکھے، اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلادے، اب وہ عورت بدستور حلال ہوجائے گی۔
۴۔ کفارۂ رمضان: کوئی روزہ قصداً بلا عذر اِفطار کردیا جائے تو علاوہ قضا کے کفارہ بھی دینا پڑے گا، اور یہ کفارہ اور اس کی ترتیب بالکل مثل کفارۂ ظہار کے ہے۔
تنبیہ: روزوں میں لگاتار ہونا شرط ہے، اگر ایک روزہ بھی خواہ بہ عذر یا بلاعذر درمیان میں رہ جائے تو اَز سرِ نو پھر سلسلہ شروع کرنا پڑے گا، البتہ عورت کے لیے حیض کا آجانا عذرِ مقبول ہے، مگر شرط یہ ہے کہ پاک ہوتے ہی فوراً شروع