تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔
دوسری قسم شکر کرنا مخلوق کا جو واسطۂ نعمت ہے، فرمایا رسول اللہﷺ نے:
مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ۔
جس نے آدمیوں کی ناشکری کی اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کیا۔
اور ابوداود ؒ نے حدیث روایت کی ہے کہ ’’جس شخص کو کوئی چیز ملی، اگر اس کو میسر ہو تب تو اس کے عوض دے، اور اگر اس کو میسر نہ ہو تو دینے والے کی ثنا اور صفت ہی کردے، پس جس نے ثنا و صفت کردی اس نے شکر ادا کیا اور جس نے اس کو پوشیدہ رکھا اس نے ناشکری کی‘‘۔
شکر کی حقیقت نعمت کی قدر دانی کرنا: شکر کی حقیقت نعمت کی قدر دانی کرنا، جب نعمت کی قدر ہوگی تو منعم کی بھی ضرور قدر ہوگی، اور جس کے ذریعے وہ نعمت پہنچی ہے اس کی بھی قدر ہوگی، اس طرح سے خالق اور مخلوق دونوں کا شکر ادا ہوجائے گا۔
اب سمجھو کہ دِل میں جس کی قدر ہوتی ہے اس کی تعظیم و محبت بھی کرتا ہے، اس کی بات ماننے کو بھی بالا ضطرار دِل چاہتا ہے، سو کمالِ شکر خالق کا یہی ہوگا کہ دِل میں ان کی تعظیم ہو اور زبان پر ثنا و صفت، جوارح سے اَحکام کی حتی الامکان پوری تعمیل۔ یہی راز ہے مفہومِ شکر کے عام ہونے میں کہ قلب و لسان اور جوارح تینوں اس کے محلِ ورود ہیں۔
دوسری بات ضروری سمجھنے کے قابل یہ ہے کہ جب واسطۂ نعمت کی شکر گزاری بھی ضروری ٹھہری، یہاں سے اُستاذ و پیر وغیرہما کا حق بھی نکل آیا کہ یہ لوگ نعمتِ حقیقی علمِ دین وعرفان ویقین کے واسطے ہیں، سو جتنی بڑی نعمت ہوگی اتنا ہی واسطۂ نعمت کا بھی حق ہوگا، اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اُستاذ و پیر کا حق کتنا بڑا ہے، اَفسوس! اس زمانے میں یہ دونوں علاقے ایسے کمزور ہوگئے ہیں کہ کوئی ان کی وقعت ہی نہیں رہی۔
اب ہم بہت اختصار کے ساتھ دونوں کے حقوق جدا جدا لکھ دیتے ہیں، آگے توفیق اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ہے۔
حقوقِ اُستاذ: