ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’اگر جھوٹا ہے تب تو ایمان جاتا رہا، اور اگر سچا ہے تب بھی صحیح و سلامت اسلام کی طرف نہ آئے گا‘‘۔ 1 (1 ابوداود)
دوم: یہ کہ اللہ کی قسم کھاوے تو سچ کھاوے۔ چناںچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’خدا کی قسم مت کھاؤ مگر جس حالت میں سچے ہو‘‘۔ 1 (1 ابوداود و نسائی)
سوم: یہ کہ زیادہ قسم نہ کھائے، اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کی بے حرمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نون میں {حَلَّافٍ} کو اوصافِ ذمّ میں یاد فرمایا ہے۔
چہارم: یہ کہ اگر شرع کے موافق کسی اَمر پر قسم کھائی ہے تو اس کو پورا کرے، اور اگر خلافِ شرع ہے مثلاً: کسی گناہ پر قسم کھائی ہے کہ فلاں پر ظلم کروں گا، یا کسی کا حق تلف ہوتا ہے مثلاً: قسم کھائی ہے کہ باپ یا بھائی یا کسی اور مسلمان سے نہ بولوں گا یا فلاں حق دار کو کچھ نہ دوں گا، ایسی قسم کو توڑ ڈالے۔ چناںچہ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی بات پر قسم کھائے اور پھر دوسری بات اس سے اچھی نظر آئے تو اپنی قسم کا کفارہ دے اور اس کام کو کرے‘‘۔ 1 (1 مسلم)
پنجم: یہ کہ کسی کا حق مارنے کے واسطے پھیر اور پیچ کی قسم نہ کھائے، البتہ اگر اس پر ظلم ہوتا ہو تو جائز ہے، مثلاً: تمہارے ذ۔ّمہ زید کا کچھ روپیہ آتا ہے تو تم قسم اس طرح کھانا چاہو کہ جھوٹی بھی نہ ہو اور روپیہ بھی نہ دینا پڑے، مثلاً: یوں کہو کہ ’’میرے پاس تمہارا روپیہ نہیں ہے‘‘ اور تمہارا مطلب یہ ہو کہ اس وقت ہماری جیب میں نہیں ہے، یہ حیلہ گناہ ہے، البتہ اگر کوئی ظالم، چور، ڈاکو تمہارے گھر کا دفینہ، خزینہ بہ جبر دریافت کرے تو اس وقت ایسی تاویل سے قسم کھا لینا کہ ’’میرے پاس تو ایک آدھی بھی نہیں ہے، مجھے کیوں تنگ کرتے ہو‘‘ تو یہ جائز ہے،بلکہ اکثر ۔ُعلمائے محققین کے نزدیک ایسے وقت میں صریح جھوٹ بھی جائز ہے۔
ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’قسم کھانے والے کی نیت پر قسم واقع ہوتی ہے‘‘۔ 1 (1 مسلم)
رفعِ غلطی و کفارۂ قسم و اقسام ِآں: کفارے کی کئی قسمیں ہیں: ۱۔کفارۂ یمین۔ ۲۔ کفارۂ قتل، ۳۔ کفارۂ ظہار۔۴۔ کفارۂ رمضان، یہ سب قسمیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔