ترستے رہیں دوسروں کو بھرتا رہے۔ البتہ اگر سب کی خدمت کرسکتا ہے تو سبحان اللہ! اس سے بہتر کیا چیز ہے۔
ف: اور غلام، نوکر، خدمت گار بھی عیال کے حکم میں ہیں، ان کی مدارات و مواسات بھی ضروری ہے۔ کسی نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ میں خادم سے کس قدر معاف کیا کروں؟ فرمایا: ’’ہر روز ۔ّستر مرتبہ‘‘۔ 1 (1 ترمذی)
مراد یہ ہے کہ ہر بات میں اس پر سختی کرنا اور اس سے تنگ ہونا نہ چاہیے، جس آدمی سے بہت سی راحت پہنچتی ہے اگر ایک آدھ تکلیف بھی ہوجائے تو صبر کرے اور اس کو معذور سمجھے۔
خدمتِ والدین: ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا والدین کے راضی ہونے میں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ناخوشی والدین کی ناخوشی میں ہے‘‘۔1 (1 ترمذی)
ابنِ مسعود ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے بڑھ کر عمل کون سا ہے؟ فرمایا: ’’نماز پڑھنا اپنے وقت پر‘‘۔ انھوںنے عرض کیا: پھر کون سا عمل؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ماں باپ کی خدمت کرنا‘‘ انھوںنے عرض کیا: پھر کون سا عمل؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جہاد کرنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں‘‘۔ 1 (1 بخاری و مسلم)
ف: اور بہت سی آیات و احادیث اس باب میں وارد ہیں، آج کل اس میں بہت کوتاہی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ اور نیک توفیق عطا فرمائیں۔
تربیتِ اولاد: فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں کہ ان کو علم و ادب سکھلاوے اور ان کی پرورش کرے اور ان پر مہربانی کرے، اس کے لیے ضرور جنت واجب ہوتی ہے‘‘۔ 1 (1 بخاری ’’ادب‘‘ ) اور بخاری ؒ نے ادب میں ابنِ عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ’’جیسا کہ تمہارے والد کا تم پر حق ہے، اسی طرح تمہاری اولاد کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔
ف: چوںکہ اولاد سے طبعی محبت ہوتی ہے، اس لیے اس حق کے بیان کرنے میں شریعت نے زیادہ اہتمام نہیں فرمایا، اور لڑکیوں کو چوںکہ حقیر سمجھتے ہیں اس لیے ان کی تربیت کی فضیلت بیان ہوئی۔