کسی کو وکیل بناتے ہیں تو کیا صاحبِ ۔ّمقدمہ پیروی چھوڑ دیتا ہے، مگر باوجود اس کے ۔ّمقدمے کی کامیابی کا نتیجہ وکیل کی لیاقت و حسنِ تقریر و سعی کو سمجھتا ہے، اس کی اپنی تدابیر کی طرف نسبت نہیں کرتا۔ بالکل یہی حال توکل کا سمجھنا چاہیے کہ اسباب و تدابیر بشرطے کہ خلافِ شرع نہ ہوں، سب کچھ کرے، مگر ان کو مؤثرِ حقیقی نہ سمجھے۔ یہ اعتقاد رکھے کہ کام جب بنے گا اللہ تعالیٰ کے حکم و فضل سے بنے گا، اور واقع میں اگر دیکھا جائے تو تدبیر کا مؤثر ہونا محض خدا ہی کے فضل سے ہے، بندے کو اس میں ذرّہ برابر بھی تو دخل نہیں، مثلاً: زمین میں بیج ڈال دیا، یہ تو اس کی تدبیر تھی، اب وقت پر بارش ہونا، اس کا زمین سے اُبھرنا، پکنا، آفاتِ سماوی سے محفوظ رہنا، یہ اس کے اختیار میں کب ہے؟ اس لیے واجب ہے کہ کامیابی کو ثمرہ فضلِ خدا وندی کا سمجھے، بس یہ توکل ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا ہوگا اکثر مسلمان اس نعمتِ توکل سے مشرف ہیں۔ البتہ بعض بعض کو کسی قدر خیالات کے اصلاح کی ضرورت ہے، اور جو کچھ ۔ّمقدمۂ رزق وغیرہ میں طبیعت کو تشویش پیش آتی ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگوں کو صفتِ توکل حاصل نہیں یا وعدۂ الٰہیہ پر اعتماد نہیں، بلکہ وجہ اس تشویش کی صرف یہ ہے کہ کامیابی کے طریق و اوقات ۔ّمعین نہیں، اِبہام کو ترددّ
لازم ہے، اور بعض متوکلین کو بلا اسباب کچھ مل گیا ہے وہ کرامت کے قبیل سے ہے، جو توکل کے آثار غیر لازمہ سے ہے، حقیقتِ توکل میں داخل نہیں، خوب سمجھ لو۔
ترک کرنا ۔ُعجب کا: طبرانی نے حدیث نقل کی ہے کہ ’’تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: ایک حرص جس کی اطاعت کرنے لگے، اور خواہشِ نفسانی جس کی پیروی کی جاوے اور خود بینی و خود پسندی‘‘۔ اور یہ بھی خود پسندی میں داخل ہے کہ اپنے منہ سے اپنی تعریف کرے، اپنی بزرگی وکمالات بیان کرے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے: {فَلَا تُزَکُّوْآ اَنْفُسَکُمْط} الآیۃ۔
فرق درمیان رِیا و تکبر و ۔ُعجب: اور تکبر کی ۔ُبرائی فصلِ تواضع میں بیان کی گئی ہے، جاننا چاہیے کہ یہ تین چیزیں ہیں: تکبر، ۔ُعجب، رِیا۔ سرسری نظر سے ان میں فرق معلوم نہیں ہوتا مگر یہ سب جدا جدا ہیں۔ خلاصہ فرق کا یہ ہے کہ رِیا تو ہمیشہ عبادت و اُمورِ دینی ہی میں متحقق ہوتا ہے، بہ خلاف ۔ُعجب و تکبر کے کہ اُمورِ دینیہ و دُنیویہ دونوں میں ہوتا ہے، پھر تکبر میں تو آدمی دُوسرے کو حقیر سمجھتا ہے بہ خلاف ۔ُعجب کے، کہ وہ اپنے کو اچھا سمجھتا ہے گو دُوسرے کو حقیر نہ سمجھے۔