معاملاتِ فاسدہ و باطلہ کی تفصیل کتبِ فقہ و ۔ُعلما سے تحقیق کرلینا ضروری ہے، دو چار کے نام جو کثرت سے پھیل رہے ہیں، میں لکھے دیتا ہوں:
۱۔ کسی چیز پر کئی آدمیوں کامل کر ۔َچھٹی ڈالنا۔
۲۔ سود لینا دینا، اس میں بینک اور ڈاک خانے کا منافع بھی آگیا۔
۳۔ ابھی مال اپنے قبضے میں نہیں آیا فقط بیجک آنے پر معاملہ کرلینا۔
۴۔ تصویر دار کتاب یا موضوع قصہ جس میں کسی نبی یا اہلِ بیت ؓ و صحابہ ؓ کی طرف نسبت ہو، چھاپنا۔
۵۔ سنار یا ۔ّصراف وغیرہ سے چاندی یا سونے کا زیور کم و بیش چاندی یا سونے سے یا اُدھار خریدنا بیچنا۔
۶۔ روپیہ کے کچھ پیسے اب لے کر کچھ دوسرے وقت لینا۔
ادائے شہادت: فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’اور مت چھپاؤ گواہی کو، اور جو چھپائے گا گواہی کو سو اس کا دِل گناہ گار ہوگا‘‘۔
زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺنے: ’’کیا تم کو خبر نہ کردوں سب سے اچھے گواہ کی، یہ وہ شخص ہے جو گواہی دے دے قبل اس کے کہ اس سے درخواست کی جائے‘‘۔ 1 (1 مسلم)
جھوٹی گواہی اور جھوٹی نالش کی ۔ُبرائی اور ایسے ۔ّمقدمہ میں وکیل بننا: اس مذکورہ آیت وحدیث سے معلوم ہوا کہ گواہی کا چھپانا درست نہیں بلکہ اگر ایک شخص کا حق ضایع ہو رہا ہے اور اس شخص کو گواہ نہیں ملتے اور ہم کو اس واقعے کی اطلاع اور مشاہدہ ہے اور اس شخص کو یہ بات معلوم نہیں کہ میرے واقعے سے واقف ہیں، ایسے وقت میں خود گواہی دینے کو مستعد ہوجانا چاہیے اور اس کی درخواست کا انتظار نہ کرے، کیوںکہ اس کو ہمارا شاہد ہونا معلوم نہیں، اس وجہ سے درخواست نہیں کرتا۔ البتہ اگر بعد ہمارے جتلا دینے کے پھر وہ ہماری گواہی نہ چاہے تو خواہ مخواہ عدالت میں خود حاضر ہو کر گواہی دینا ضروری نہیں، اور یہ حکم سچی گواہی کا ہے، اور جھوٹی گواہی جیسا کہ آج کل بہ کثرت رائج ہے، بڑا گناہ ہے۔
خریم بن فاتک ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز پڑھی، جب آپﷺ فارغ ہوئے سو کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ ’’جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے (یعنی قرآنِ مجید میں)‘‘۔ آپﷺ نے اس کو تین بار فرمایا پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ} الایۃ، یعنی بچو تم پلید چیز سے، یعنی بتوں سے اور جھوٹ بات