بت کی، لیکن وہ غیر اللہ کے واسطے کچھ عمل کیا کریں گے اور پوشیدہ خواہشِ نفسانی کے لیے‘‘۔ اور اس آیت میں شرک کی تفسیر ’’رِیا‘‘ کے ساتھ کی گئی ہے: {لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّـہٖٓ اَحَدًاO}۔
ف: رِیا کا شرک ہونا فصلِ توحید میں کسی قدر بیان ہوچکا ہے، وہاں دیکھ لینا چاہیے، اور نفاق کہتے ہیں کفر دِل میں رکھ کر اسلام کے ظاہر کرنے کو۔
اَقسامِ نفاق: نفاق کی دو قسمیں ہیں: ایک نفاقِ اعتقادی، تفسیرِ مذکور اسی نفاق کی تھی اور اسی نفاق کے بارے میں یہ وعید آئی ہے:
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج}2
بے شک منافق لوگ نیچے کے درجے میں ہوں گے جہنم کے۔
دوسری قسم: نفاقِ عمل، یعنی اعتقاد تو درست ہے مسلمانوں کا سا، مگر بعضے افعال ایسے صادر ہوتے ہیں جیسے منافقین کے ہوتے تھے، جیسے حدیث میں عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’چار خصلتیں ہیں جس شخص میں وہ چاروں ہوں وہ تو پورا منافق ہوگا، اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی، جب تک کہ اس خصلت کو نہ چھوڑے گا:
۱۔ جب اس کے پاس کچھ امانت رکھوائی جائے خیانت کرے۔
۲۔ جب بات کرے جھوٹ بولے۔
۳۔ جب معاہدہ کرے بد عہدی کرے۔
۴۔ جب لڑے جھگڑے گالیاں بکنے لگے۔1
اس حدیث میں نفاق سے مراد یہی نفاقِ عمل ہے، جیسے کسی شریف زادہ کو جو دناء ت کے افعال اختیار کرلے چمار کہہ دیتے ہیں، یعنی چماروں کا سا کام کرنے والا۔