اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبُّہَا، وَأَنْتَ خَلَقْتَہَا، وَأَنْتَ ہَدَیْتَہَا لِلإِْسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوْحَہَا، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّہَا وَعَلَانِیَتِہَا، جِئْنَاکَ شُفَعَائَ فَاغْفِرْ لَہَا۔
ادائے دَین: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جانا سب چیز کا کفارہ ہوجاتا ہے مگر دَین‘‘۔ 1 (1 مسلم)
مقدمۂ قرض میں بے احتیاطیاں: صاحبو! شہادت سے بڑھ کر کیا چیز ہے،جب دَین اس سے بھی معاف نہ ہو اور کس عمل سے معاف ہوگا۔ اس سے دَین کی بڑی سختی معلوم ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اس کا خیال نہیں کرتے۔ اس ۔ّمقدمہ میں کئی بد پرہیزیاں ہوتی ہیں:
پہلی: بلا ضرورت کسی کا مدیون ہوجانا، اکثر ایسے ہی ہوتا ہے کہ فضولیات کے لیے قرض لیا جاتا ہے، بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے جو مصیبت کے مارے قرض لیتے ہوں اور مصیبت زدوں کو ملتا کب ہے، اکثر مال دار اہلِ جائیداد کو ملتا ہے۔ تو فرمایئے اس پر کیا بلا نازل ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھلائے قرض دار ہوا، اور قرض داری بھی یا تو کسی شادی میں برباد کرنے کو یا کوئی عالی شان محل تیار کرنے کو یا رُسومِ غمی میں جو اکثر خلافِ عقل اور خلافِ شرع میں اُڑانے کو، غرض نام آوری کے کاموں میں صَرف کرنے کو قرض ہوتا ہے، پھر خدا کے فضل سے نام بھی نصیب نہیں ہوتا اور اگر نام بھی ہوا تو اس کی کیا قیمت ہے، اور پھر کل کو اس سے بڑھ کر جو بدنامی ہوگی اس کی کچھ پروا نہیں۔
دوسری: بد پرہیزی یہ کہ اپنے زیور یا جائیداد محفوظ رکھنے اور دوسروں سے قرض لینا اکثر سودی قرض ملتا ہے،چند روز میں دُگنے چوگنے ہو کر وہ تمام زیور اور جائیداد برباد ہوجاتی ہے اور خسارہ اور گناہ رہا کھاتے میں، بس اگر ایسی ہی ضرورت ہے تو ہرگز موجود چیز کی محبت نہ کرے، خدائے تعالیٰ پھر عطا فرمائیں گے، اپنی راحت و عافیت کے مقابلے میں زیور و جائیداد کیا بلا ہے۔
تیسری: بد پرہیزی یہ کہ لے کر بے فکر ہوجاتے ہیں، یہ نہیں کہ اس کا خیال رکھیں، تھوڑا تھوڑا ادا کرتے رہیں، اپنے بعض غیر ضروری مصارف کو روک کر اپنی آمدنی میں سے پس انداز کرکے کچھ کچھ پہنچاتے رہیں، بدنام ہوتے ہیں، ذلیل ہوتے ہیں، نا دہند متصور ہوجاتے ہیں، اعتبار جاتا رہتا ہے، لوگ معاملہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سب سے خطرہ یہ کہ مواخذۂ