گیا تھا، ابنِ مسعود ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ ہم کو اجازت دیں تو کچھ فرش بچھا دیا کریں اور بھی اہتمام کردیں۔ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’مجھے دنیا سے کیا علاقہ؟ میری اور دنیا کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ لینے کھڑا ہوگیا پھر اس کو چھوڑ کر آگے چل دیا‘‘۔5
ابی اُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’میرے پروردگار نے مجھ پر یہ بات پیش کی کہ مکہ معظمہ کی زمین کو سونے کی بنادوں، میں نے عرض کیاکہ ’’نہیں اے پروردگار! بس ایک روز پیٹ بھر لیا کروں، ایک روز بھوکا پڑا رہوں، جب بھوکا ہوؤں تو آپ سے ۔ُ۔ّتضرع کروں اور آپ کو یاد کروں، اور جب پیٹ بھرے تو آپ کی تعریف کروں اور شکر کروں‘‘۔6
اور ان کے علاوہ اس کثرت سے دُنیا کی مذمت اور حرص و ۔ّحبِ مال و جاہ کی ۔ُبرائی میں اور زہد و قناعت و طلبِ آخرت و گمنامی کی فضیلت میں احادیثِ صحیحہ صریحہ موجود ہیں جن کا احاطہ محال ہے۔
اصلاح خیالات ترقی خواہانِ دنیا و تحقیق ترقیٔ محمود و ترقیٔ مذموم: ہمارے زمانے میں ترقی کا بڑا شور و غل ہے، جب اس کی حقیقت کی تفتیش کی گئی یہی طولِ اَمل و حرصِ مال و جاہ اس ترقی کا حاصل نکلا۔ سو ایمان والا تو اس میں ہرگز شک نہیں کرسکتا کہ اس ترقی کی ترغیب دینا حقیقت میں اپنے حکیم و شفیق پیغمبرﷺ کی مبارک و مقدس تعلیم کا پورا معارضہ ہے، اگرچہ اپنی کارروائی کی غرض سے اس ترقی کی ایسی ملمع تقریر کرتے ہیں جس سے بھولے آدمی دھوکا کھاسکتے ہیں، وہ یہ کہ اصل مقصود ہمارا اسلامی ترقی ہے، مگر زمانے کی رفتار کا مقتضا ہوگیا ہے کہ بدون ظاہری شان و شوکت کے اسلام کی وقعت و عظمت لوگوں کی نظر میں بالخصوص غیر قوموں کی نگاہ میں نہیںہوسکتی، اس لیے دُنیوی ترقی بھی ضروری ٹھہری۔
صاحبو! یہ تقریر ۔ِنری رنگ آمیز ہے۔ اوّل تو یہی بات غلط ہے کہ بدون دنیوی ٹیپ ٹاپ کے اسلام کی وقعت کسی کی نظر میں نہیں ہوسکتی، اسلام کا وہ خدا داد حسن و جمال ہے کہ سادگی میں بھی وہ دِل فریب ہے، بلکہ سادگی میںاس کا زیادہ رُوپ کھلتا ہے اور زیب و زینت سے تو چھپ جاتا ہے۔ صحابہؓ کے زمانے سے اس وقت تک ۔ِسیر و تواریخ سے تحقیق کرلیجیے کہ جس کسی شخص میں کامل اسلام ہوا تمام موافق و مخالف اس کی ہیبت و عظمت کو مان گئے، اور ہماری جو وقعت بدون نمایش و تصنع کے نہیں ہے، سبب اس کا یہی ہے کہ ہمارا اسلام قوی و کامل نہیںہے، اس کے رخنوں کو مہمل زیب و زینت سے رَفو کرتے پھرتے ہیں، اب بھی اللہ کے بندے اس قسم کے جہاں کہیں موجود ہیں، ان کی وقعت و عظمت خود جا کر آنکھ سے