حج کے متعلق بعض غلط خیالات کی اصلاح: روپیہ والے اکثر حج میں بھی کوتاہی کرتے ہیں۔ کوئی اپنے کاروبار کا بہانہ کرتا ہے، کوئی سمندر سے ہول کھاتا ہے، کوئی بدوؤں کو ملک الموت سمجھتا ہے۔
صاحبو! یہ تمام حیلے بہانے محض اس وجہ سے ہیں کہ حج کی وقعت دِل میں نہیں، حاضریٔ دربارِ خدا وندی کو ضروری نہیں سمجھتے، اللہ تعالیٰ کی محبت سے دِل خالی ہے، ورنہ کوئی چیز بھی ۔ّسدِ راہ نہ ہوتی۔ ادنیٰ سی مثال سے عرض کرتا ہوں:
اگر ملکۂ معظمہ اپنے پاس سے خرچِ راہ بھیج کر آپ کی طلبی کا ایک اعزازی فرمان آپ کے پاس بھیجیں، قسم کھا کر فرمایئے آپ جواب میںیہ فرمائیں گے کہ ’’صاحب! میرے مکان میںکوئی کاروبار دیکھنے والا نہیں، میںنہیں آسکتا‘‘ یا ’’مجھے تو سمندر سے ڈَر لگتا ہے اس لیے معذور ہوں‘‘ یا ’’راہ میں فلاں مقام پر لوٹ مار ہوتی ہے، میںجانا خلافِ احتیاط سمجھتا ہوں‘‘، جنابِ عالیٰ! کوئی حیلہ کرنے کو دِل نہ چاہے گا، تمام ضرورتیں اور عذر چولہے میں ڈال دوگے اور نہایت شوق و مسرت سے جس طرح بن پڑے گا افتان و خیزان دوڑے جاؤگے اور ساری مشکلیں آسان نظر آئیں گی۔
بات یہ ہے کہ ارادے سے تمام کام سہل ہوجاتے ہیں اور جب ۔ّہمت اور ارادہ ہی پست کردو تو آسان کام بھی مشکل نظر آتے ہیں، بالخصوص بدوؤں کا بدنام کرنا بالکل ہی ناواقفیت ہے۔ جو لوگ حج کرکے آئے ہیں اور کسی قدر حالاتِ واقعیہ کی تحقیق کا شوق بھی ان کے دِل میں ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ بدوؤں کی کوئی نئی حالت نہیں ہے، نہ کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے، جو اتفاق ہندوستان میں پیش آتے ہیں اور جو اسباب ان کے پیش آنے کے ہیں وہی اتفاقات و اسباب وہاں ہیں۔ یہاں گاڑی بانوں کو دیکھ لیجیے کہ ان کو ذرا بات چیت سے، کھانے سے، تمباکو سے ذرا خوش رکھیے غلام بن جاتے ہیں، اور اگر سختی کیجیے، گالی دیجیے، کہیں گاڑی اُلٹ دیں گے، کہیں پریشان کریں گے، علیٰ ہذا باوجود اس انتظامِ شدید کے بارہا تھوڑے ہی میدان میں اسٹیشن سے شہر کو آتے ہوئے حادثے ہوجاتے ہیں، وارداتیں ہوتی ہیں، ایسا ہی وہاں سمجھ لیجیے۔ بلکہ وہاں کی حالت کے اعتبار سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا، کیوںکہ وہاں کوئی چوکی نہیں، پہرہ نہیں، پھر واقعات کی کمی بالکل تعجب ہے اور جس قدر ہوتا ہے وہ بھی مسافرین کی بے انتظامی و بے احتیاطی سے ہوتا ہے، ورنہ ہر طرح سے سلامتی ہے، عافیت ہے۔
اکثر لوگوں کو ان واقعات کے سخت معلوم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اجنبی ملک، اجنبی زبان، اس لیے برداشت نہیں ہوتی۔ اور سب گفتگو کے بعد میں کہتاہوں: اچھا! سب کچھ ہوتا ہے، پھر کیا ہوا ایک آدمی کے عشق میں تمام ذ۔ّلت و کلفت گوارا کرتا ہے، کیا خدائی محبوب کا اتنا بھی حق نہیں:
اے دِل آن بہ کہ خراب از مئی گلگون باشی