ڈرتے تھے اور روتے تھے، کجا صحابہ ؓ کی ترقی، کجا اس وقت کی معکوس ترقی:
ببیں تفاوت را از کجا ست تا بکجا1
اصل بات یہ ہے کہ حرص و شہوت نے ہر چہار طرف سے گھیر لیا ہے، طبیعت آرام پسند ہے، خواہش ہوتی ہے کہ اسباب تنعّم و ۔ّتلذذ کے جمع ہوں، دین و اسلام کا نام محض بطور امتیاز وشعارِ قومی کے باقی رہے، باقی نماز کس کی، روزہ کس کا، بلکہ اَحکام کے ساتھ استخفاف و اِستہزا سے پیش آتے ہیں، صاحبو! یہ کیسا دین ہے؟ {قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO}۔
رفعِ اشتباہ: کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ میں تحصیلِ دنیا سے منع کرتا ہوں یا اس کے اسباب و وسائل مثلاً انگریزی پڑھنا، صنائعِ جدیدہ ایجاد کرنا وغیرہ کو حرام کہتا ہوں، بھلا بلا دلیلِ شرعی محض تعصباً میں اس پر حرمت کا فتویٰ دے کر اللہ پر افترا کرنے والا بننا کیسے پسند کروں گا؟ ہرگز یہ میرا مطلب نہیں، خوب دنیا کماؤ، نوکری کرو، اس کے وسائل بہم پہنچاؤ، بلکہ ظاہری اطمینان اکثر باطنی کا ذریعہ ہوتا ہے:
خداوند روزی بحق مشتغل
پراگندہ روزی پراگندہ دِل2
مگر دین کو مت ضایع کرو۔ بے وقعت مت سمجھو۔ تحصیلِ دنیا میں اَحکام و قوانینِ الٰہی کی پابندی رکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا کو دین پر ترجیح مت دو۔ جس جگہ دونوں نہ تھم سکیں، نفعِ دنیا کو چولہے میں ڈال دو۔ تعلیمِ علومِ دنیویہ میں نماز روزہ سے غافل مت ہوجاؤ۔ عقائدِ اسلام پر پختہ رہو، ۔ُبری صحبت سے بچتے رہو، اور نہ بچ سکو تو کم از کم بلا ضرورت دوستی اور اختلاط تو نہ کرو۔ ۔ُعلما
و۔ُصلحا کی صحبت سے نفور مت کرو۔
اپنے عقائد و اعمال کو ان کی خدمت میں جا کر سنوارتے رہو، کوئی شبہ ہو۔ دریافت کرلیا کرو۔ اور غیر حق پر نظر مت رکھو۔ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت اپنے اقوال و افعال پر بصیر و خبیر سمجھو۔ حساب و جزاء سے ڈرتے رہو۔ وضع و لباس میں شریعت کا پاس رکھو۔ ۔ُغربا و مساکین کو حقیر مت سمجھو، ان کی خدمت و سلوک کو فخر سمجھو۔ اپنے کو تواضع و مسکنت سے رکھو۔