اسی واسطے رسول اللہﷺ نے اس کے سنبھالنے کے لیے بہت تاکید فرمائی ہے، کیوںکہ اکثر آفتیں زبان کی بدولت نازل ہوئیں۔ جب تک زبان نہیں چلتی نہ کسی سے لڑائی ہو نہ جھگڑا نہ عدالت نہ خصومت، اور جہاں یہ چلی سب کچھ آ موجود ہوا۔ بزرگوں نے حدیثوں سے اس کی آفات مستنبط کرکے ان کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔
حضرت امام غزالی ؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں نہایت تفصیل سے اس مضمون کو لکھا اور اُردو میں حضرت مولانا مفتی عنایت احمد صاحب ؒ نے اس مضمون کو اپنے رسالہ ’’ضمان الفردوس‘‘ میں بہ قدرِ کافی تحریر فرمایا ہے۔ اس رسالے کا دیکھنا بلکہ اپنا وظیفہ بنا لینا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ راقم الحروف اس مقام پر صرف ان گناہوں کے جو زبان کے متعلق ہیں شمار کرتا ہے اور تفصیل اور وعید کو کتا۔َبین مذکورَین پر حوالے کرتا ہے۔ یہاںلکھنا سب کا تطویل ہے اور تحصیلِ حاصل بھی ہے۔ وہ سب آفات موافق شمار امام غزالی ؒ کے بیس ہیں:
۱۔ کلام کرنا ایسے اَمر میں جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔
۲۔ حاجت سے زائد کلام کرنا۔
۳۔ بے ہودہ باتوں میںخوض کرنا، مثلاً: غیر عورتوں کی حکایتیں بیان کرنا یا ۔ّفساق و فجار وظالموں کی حکایت محض دِلچسپی کے بیان کرنا جیسا کہ اکثر بیٹھکوں میں ہوتا ہے۔
۴۔ بحث و مباحثہ کرنا۔
۵۔ لڑائی و جھگڑا کرنا۔
۶۔ کلام میں تکلف و تصنع کرنا۔
۷۔ فحش گالیاں بکنا۔
۸۔ بد زبانی کرنا۔
۹۔ لعنت کرنا کسی پر یعنی پھٹکار ڈالنا، یہ عادت عورتوں میں بہت ہوتی ہے۔
۱۰۔ گانا اور شعر پڑھنا جو خلافِ شرع ہو، جیسا کہ آج کل کثرت سے یہی ہوتا ہے۔
۱۱۔ حد سے زیادہ خوش طبعی کرنا۔
۱۲۔ اِستہزا کرنا جس میں دوسرے کی تحقیر ہو یا وہ ۔ُبرا مانے۔
۱۳۔ کسی کا راز ظاہر کردینا۔
۱۴۔ جھوٹا وعدہ کرنا۔