بہتر از صد سالہ طاعت بے رِیا1
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’دُعا مغز ہے عبادت کا‘‘۔ 2
اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ: اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ قدر کی کوئی چیز نہیں۔3
ابنِ عمر ؓ سے روایت ہے کہ ’’دعا نفع دیتی ہے اس بلا سے جو نازل ہوچکی ہے اور اس بلا سے بھی جو نازل نہیں ہوئی (جو مصیبت واقع ہوگئی ہے اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور جو واقع نہیں ہوئی وہ ٹل جاتی ہے)، اپنے ذ۔ّمہ لازم کرلو اے اللہ کے بندو! دُعا کو‘‘۔4
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ ’’کوئی ایسا شخص نہیں جو دعا مانگے مگر اس کو اللہ تعالیٰ یا تو اس کو مانگی چیز دیتے ہیں یا کوئی ۔ُبرائی اس سے روک دیتے ہیں جب تک کہ گناہ یا قطعِ رحم کی دُعا نہ کرے‘‘۔5
اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’دعا کرو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں کہ اللہ کی قبولیت کا یقین رکھو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل قلب سے دعا قبول نہیں فرماتے‘‘۔6
ف: ان احادیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیںـ
ایک تو دُعا کی فضیلت اور تاثیر، اکثر لوگ شدائد میںطرح طرح کی تدبیر کرتے ہیں مگر دُعا کی طرف مطلقاً التفات نہیں کرتے، حالاںکہ وہ اعظم تدابیر ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دُعا کبھی بے کار نہیں جاتی یا تو وہی چیز مل جاتی ہے یا کوئی اور آنے والی بلا ٹل جاتی ہے یا موافق ایک روایت کے آخرت میں اس کے لیے جمع ہوجاتی ہے، بہرحال قبولیت ضروری ہوتی ہے۔ آج کل یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ ہماری دُعا قبول نہیں ہوئی، اس سے یہ شبہ جاتا رہا۔
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قبولِ دُعا کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ خلافِ شرع درخواست نہ ہو اور حضورِ قلب سے ہو اور قبولیت کا یقین ہو۔ آج کل ان سب شرائط میں غفلت ہے۔ اکثر یہ خیال نہیں ہوتاکہ ہم جو چیز مانگ رہے ہیں موجب ناخوشی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے تو نہ ہوگی، نہ حضورِ قلب میسر ہوتا ہے۔ بلکہ حالت یہ ہے:
بر زبان تسبیح و دَر دِل گاؤخر