کی نوبت آگئی، مثلاً قرآنِ مجید میں ہے: {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیO}3
اب اس میں یہ تفتیش کرنا کہ ’’استواء‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی کیا تاویل ہے؟ بے شک نہایت جرأت کی بات ہے۔ اپنی صفات کے حقائق تو پورے طور پرمعلوم نہیں، تا
بخالق چہ رسد۔ بس سیدھی بات یہی ہے کہ مجملاً اعتقاد رکھے کہ جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، حق ہے۔ جیسی اس کی ذات ہے ویسا ہی استوا ہوگا۔ زیادہ تفتیش کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نہ ہم اس کے مکلف ہیں، نہ ہم سے اس کا سوال ہوگا۔ البتہ یہ یقینی طور پر اعتقاد رکھے کہ یہ استوا ہمارے استوا کے مثل نہیں ہے، بقولہ تعالیٰ: {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌج} رہا یہ کہ پھر کیسا ہے؟ اس سے بحث نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے حوالہ کردے۔
یا حدیث شریف میں آیا ہے:
یَنْزِلُ رَبَّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَـا۔
نزول فرماتا ہے ہمارا رب ہر شب آسمانِ دنیا کی طرف۔
اب اس فکر میں پڑیئے کہ نزول سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کس طرح ہے؟ رسول اللہﷺ کا اس نزول کے خبر دینے سے جو مقصود ہے کہ لوگ ذوق و شوق و حضورِ قلب سے اس وقت ذکر و عبادت میں مشغول ہوں، اس کام میں لگنا چاہیے، ان فضول تحقیقات میں پڑ کر حقیقت کا پتا قیامت تک بھی لگنے کی اُمید نہیں، خواہ مخواہ اپنا وقتِ عزیز ضایع کرنا ہے:
نیست کس را از حقیقت آگہی
جملہ می میرند با دستِ تہی1
قال اللّٰہ تعالٰی:
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَـآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْـلِہٖج}2
رہے وہ لوگ جن کے دِلوں میںکجی ہے سو وہ پیچھے پڑتے ہیں اس مضمون کے جس کا مطلب پوشیدہ ہے اس قرآن میں سے فتنہ تلاش کرنے کو اور اس کی تاویل ڈھونڈنے کو۔