کی پہچان یہی ہے۔
۳۔ ۔ُمرشد جو کچھ کہے اس کو فوراً بجا لائے، اور بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا نہ کرے، کیوںکہ بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کو اس کا کرنا زہرِ قاتل ہے۔
۴۔ جو ورد و وظیفہ ۔ُمرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے، خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
۵۔ ۔ُمرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے، یہاں تک کہ سوائے فرض و سنت کے نمازِ نفل اور کوئی وظیفہ بغیر اس کی اجازت کے نہ پڑھے۔
۶۔ حتی الامکان ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ ۔ُمرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے۔
۷۔ اس کے مصلّے پر پیر نہ رکھے۔
۸۔ اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یا وضو نہ کرے۔
۹۔ ۔ُمرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لاوے۔
۱۰۔ اس کے سامنے نہ کھانا کھائے، نہ پانی پیے اور نہ وضو کرے، ہاں! اجازت کے بعد مضایقہ نہیں۔
۱۱۔ اس کے رُو برو کسی سے بات نہ کرے، بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
۱۲۔ جس جگہ ۔ُمرشد بیٹھا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے اگرچہ سامنے نہ ہو۔
۱۳۔ اور اس کی طرف تھوکے بھی نہیں۔
۱۴۔ جو کچھ ۔ُمرشد کہے یا کرے اس پر اعتراض نہ کرے، کیوںکہ جو کچھ وہ کرتا ہے یا کہتا ہے، اِلہام سے کرتا اور کہتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ نہ آوے تو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا قصہ یاد کرے۔
۱۵۔ اپنے ۔ُمرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔
۱۶۔ اگر کوئی شبہ دِل میں گزرے تو فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے، اور اگر ۔ُمرشد اس کا کچھ جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس کے جواب کے لائق نہ تھا۔
۱۷۔ خواب میں جو کچھ دیکھے وہ ۔ُمرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آوے تو اسے بھی عرض کردے۔
۱۸۔ بے ضرورت اور بے اذن ۔ُمرشد سے علیحدہ نہ ہو۔
۱۹۔ ۔ُمرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بہ آوازِ بلند اس سے بات نہ کرے اور بہ قدرِ ضرورت مختصر کلام کرے