ہوتے ہیں۔
اوّل: علمِ شریعت سے بقدرِ ضرورت واقف ہو ، خواہ تحصیل سے ہو یا صحبت علماء سے، تافسادِ عقائد واعمال سے محفوظ رہے اور طالبین کو بھی محفوظ رکھ سکے، ورنہ مصداق ’’او خویشتن گم است کرا رہبری کند‘‘ کا ہوگا۔
دوم: متقی ہو یعنی ارتکاب کبائر واصرار علی الصغائر سے بچتا ہو۔
سوم: تارک دنیا ، راغبِ آخرت ہو، ظاہری وباطنی طاعات پر مداومت رکھتا ہو، ورنہ طالب کے قلب پر برا اثر پڑے گا۔
چہارم: مریدوں کا خیال رکھے کہ کوئی امر ان سے خلاف شریعت وطریقت ہوجاوے تو ان کو متنبہ کرے۔
پنجم: یہ کہ بزرگوں کی صحبت اٹھائی ہو، ان سے فیوض وبرکات حاصل کئے ہوں۔ اور یہ ضرور نہیں کہ اس سے کرامات و خوارق بھی ظاہر ہوتے ہوں، نہ یہ ضرور ہے کہ تارک کسب ہو۔ دنیا کا حریص وطامع نہ ہو اتنا کافی ہے۔ (از قول جمیل)
اور باقی متعلقات اس کے مثلاً آداب طالب وشیخ وحکم تعدد شیوخ وغیرہ مسائل جزئیہ میں بیان کئے جاویں گے۔
فائدہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علاوہ بیعت اسلام وغزوہ وغیرہ کے مقامات سلوک کی بیعت بھی لی ہے کا۱؎لنصح لکل مسلم وان لایخافوا فی اﷲ لومۃ لائم وان لا یسئلوا الناس شیئا۔ پس اس کے سنت ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بعدہ‘ بوجہ اشتباہ بیعت خلافت کے سلف نے صحبت پر اکتفا کیا تھا، پھر خرقہ کی رسم بجائے بیعت جاری ہوئی۔ جب وہ رسم خلفاء میں نہ رہی صوفیہ نے اس سنت مردہ کو پھر زندہ کیا۔ (قول جمیل)
رہی ابتدا اس لقب صوفی کی! سو خیر القرون میں تو صحابی، تابعی، تبع تابعی امتیاز اہل حق کیلئے
-----------
۱؎ جیسے ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی کرنا، اور اﷲ کے حکم کے مقابلے میں کسی کی ملامت کا خوف وخیال نہ کرنا، اور لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔