ہے مگر محض اس کی تحقیر کی غرض سے اس کو ملامت کرنا، عار دلانا بری بات ہے۔ ڈرنا چاہئے کہیں ناصح صاحب اسی بلا میں نہ مبتلا ہوجاویں۔
ادب(۱۳۴): غیبت جیسے زبان سے ہوتی ہے اسی طرح کسی کی نقل اتارنے سے بھی، بلکہ یہ زیادہ قبیح ہے مثلاً آنکھ دبا کر دیکھنا، لنگڑا کر چلنا۔
ادب(۱۳۵): زیادہ مت ہنسو اس سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔ یعنی اس میں قساوت و غفلت آجاتی ہے۔ اور چہرے کی رونق جاتی رہتی ہے۔
ادب(۱۳۶): جس شخص کی غیبت ہوگئی ہو اور اس سے کسی وجہ سے معاف کرانا دشوار ہو تو ہارے درجے اس کا علاج یہ ہے کہ اس شخص کے لئے اور اس کے ساتھ اپنے لئے استغفار کرتے رہو۔ اس طرح اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَ لَہ‘۔
ادب(۱۳۷):جھوٹا وعدہ مت کرو حتّٰی کہ بچے کے بہلانے کو بھی جھوٹ مت کہو کہ تجھ کو مٹھائی دیں گے، بسکٹ دیں گے۔ اگر کہو تو دینے کی نیت رکھو۔
ادب(۱۳۸): کسی کا دل خوش کرنے کیلئے خوش طبعی کرنا مضائقہ نہیں مگر اس میں دو امر کا لحاظ رکھو: ایک یہ کہ جھوٹ نہ بولو، دوسرے یہ کہ اس شخص کا دل آزردہ مت کرو۔ یعنی اگر وہ برا مانتا ہے تو ہنسی مت کرو۔
ادب(۱۳۹): حسب نسب یا اور کسی کمال پر شیخی مت بگھارو۔
----------------
{۱۳۵} ایاک وکثرۃ الضحک فانہ یمیت القلب ویذہب بنور الوجہ۱۲ بیہقی {۱۳۶} ان من کفارۃ الغیبۃ ان یستغفر لمن اغتبہ یقول اللہم اغفر لنا ولہ۱۲ بیہقی {۱۳۷} اوفوا اذا وعدتم۱۲ بیہقی۔ اما انک لو لم تعطیہ شیئا کتبت علیک کذبۃ ۱۲ ابوداو‘د {۱۳۸} قالوا یا رسول اﷲ! انک تلاعبنا؟ قال: انی لا اقول الا حقا۱۲ ترمذی ۔ {۱۳۹} ان اﷲ اوحی الی ان تواضعوا حتی لایفخر احد علی احد۱۲ مسلم {۱۴۰} وصاحبہما فی الدنیا معروفا واتبع سبیل من اناب الی۔ الآیۃ۔ وعن اسماء بنت ابی بکر قالت قدمت علی امی وہی مشرکۃ فی عہد قریش۔ فقلت یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! ان امی قدمت علی وہی راغبۃ أفأصلھا؟ قال: نعم صلیہا۱۲ متفق علیہ