ترجیح دینے لگے اور بہت سے عقائدِ اسلام پر خود ہنسنے لگے۔ ایک اثر عوام پر یہ ہوا کہ نماز وروزہ میں تو علماء سے رجوع کرنے کو ضروری سمجھے ، اور معاملات و معاشرت میں اپنے کو خود مختار جان لیا۔ اسی وجہ سے علماء سے کبھی اپنے مقدمہ یا تجارت کے متعلق رائے نہیں لی جاتی، نہ توحید ورسالت کے مباحث و احکام کی تحقیق کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اعمال سے شرک فی الالُوہیت یا شرک فی النبوت لازم آجاتا ہے بالخصوص مستورا ت کو۔
ایک اثر اہلِ علم پر یہ ہوا کہ شب و روز اعمال وعبادات کے مسائل کے استذکار واستحضار میں شغل واہتمام رہتا ہے۔ نہ معاملات کی تحقیق نہ اخلاق وآداب کا لحاظ، نہ اصلاح نفس و قلب کی کوشش۔ حتّٰی کہ ترقی علم کے ساتھ ہی عُجب و کِبر و حرص و حُبِّ دنیا و غفلت کی بھی ترقی ہوتی جاتی ہے۔
ایک اثر درویشوں پر یہ ہوا کہ شریعت و طریقت کوجدا جداسجھے، اورحقیقت کو اصل مقصود اور شریعت کو انتظامی قانون اعتقاد کر لیا، علماء سے نفور ہوگئے، واردات و احوال کو منتہیٰ معراج خیال کیا، خیالات کو مکاشفات اور مکاشفات کو فوق الیقینیات یقین کیا۔ نہ اس کو میزان شرع میں وزن کرنے کی ضرورت، نہ علماء سے پیش کرنے کی حاجت۔ غرض! ہر طبقے کے لوگوں کو کم و بیش اس خیال باطل کا اثر ضرور پہنچا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجعُوْنَ۔
حالانکہ جس نے کتاب وسنت کو ذرا بھی طلب والتفات کی نگاہ سے دیکھا ہوگا، وہ ان سب امور کی تعلیم کو کُھلے کُھلے الفاظ میں پاوے گا۔ اور شریعت مطہرہ کو کافی وافی اور دوسری کتب و حکم و قوانین و تعالیم سے مستغنی کرنے والا دیکھے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت حق سبحانہ‘ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں یوں نہ فرماتے:
کَمَا اَرْسَلْنَافِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ ونحو ذلک
اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سوال کے (کہ بعض باتیں یہود کی ہم کو اچھی معلوم ہوتی