انہوں نے صبر کیا)
٭… اپنے کو متانت و وقار سے رکھے، ورنہ مریدوں کی نظر میں بے وقعتی ہونے سے ان کو فیض نہ ہوگا۔
لما ورد فی حقہ علیہ السلام من یراہ من بعید ھابہ ومن یراہ من قریب احبہ ونحوہ۔
(کیونکہ رسول علیہ السلام کے حق میں حدیث میں آیا ہے کہ جو دیکھتا تھا آپ کو دور سے خوف کھاتا تھا اور جو دیکھتا تھا نزدیک سے محبت کرتا تھا یا ایسا ہی کچھ مضمون ہے)
٭… اور ایک مرید کو دوسرے مرید پر ترجیح نہ دے۔ لقولہ تعالیٰ:
عَبَسَ وَ تَوَلّٰی
(تیور چڑھائے اور منہ موڑا)
البتہ اگر ایک کو خدا کی طلب زیادہ ہے اس کو ترجیح دینے میں مضائقہ نہیں ۔
٭…اور ایسی حرکت نہ کرے جس سے خلقت کو بداعتقادی ہو کہ اس میں طریق ارشاد مسدود ہوتا ہے۔ قال اﷲ تعالیٰ:
دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ
(بلانے والے اﷲ کی طرف)
اول باب سے یہاں تک یہ مضامین ارشاد الطالبین کے ہیں جو قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی کی عمدہ تصانیف سے ہے۔
فصل تصور شیخ میں: اس کو برزخ اور رابطہ اور واسطہ بھی کہتے ہیں ۔ اس کے یہ معنی تو آج تک کسی محقق نے نہیں فرمائے کہ خدائے تعالیٰ کو پیر کی شکل میں سمجھے۔ یہ تو محض باطل ہے۔
اور اگر اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرِتِہٖ (تحقیق اﷲ نے پیدا کیا آدم کو اپنی صورت پر) سے دھوکہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ صورت ناک منہ ہی کو نہیں کہتے مثلاً یہ بولتے ہیں اس مسئلے کی یہ صورت ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کی ناک منہ نہیں ہے۔ بلکہ صورت کے معنی صفت کے بھی آتے ہیں ۔ تو انسان کو آخر سمع، بصر وغیرہ عنایت ہوا ہے اس لئے اس کو صورت حق کہا گیا۔ غرض یہ معنی تصور شیخ کے بالکل