فصل: جس طرح اولیاء کے آداب میں تقصیر ممنوع ہے اسی طرح افراط و غلو اور بھی بدتر ہے کہ اس میں اﷲ ورسول کی شان میں تفریط ہوتی ہے۔ مثلاً ان کو عالم الغیب سمجھنا ، اس سے کفر لازم آتا ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ:
لَایَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔ و۔ قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ۔وَلَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَاشَآئَ۔
(فرمایا اﷲ تعالیٰ نے: نہیں جانتے جو آسمان اور زمین میں ہیں غیب کی باتیں مگر اﷲ۔ اور فرمایا : کہہ دو اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب کی بات جانتا ہوں۔ اور فرمایا اﷲ تعالیٰ نے: کہ لوگ اﷲ کے ذرا سے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنے کا کہ خود اﷲ چاہے)
یا ان کو کسی چیز کے موجود یا معدوم کر دینے پر، یا اولاد و رزق وغیرہ دینے پر، یا خدا سے زبردستی دلانے پر قادر سمجھنا یہ بھی کفر ہے۔قال اﷲ تعالیٰ:
قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ۔
(فرمایا اﷲ تعالیٰ نے: کہہ دو اے محمد! کہ میں نہیں مالک ہوں اپنے لئے نفع کا اور نہ ضرر کا، مگر جتنا اﷲ چاہے)
یا ان کے ساتھ عبادت کے طریقوں میں کوئی طریق برتنا مثلاً ان کی منت ماننا ، یا ان کا، یا ان کی قبر کا طواف کرنا، یا ان سے دعا مانگنا، یا ان کے نام کو عبادتاً جپنا، یہ سب بعض معصیت وبدعت کے اور بعض کفر وشرک کے طریقے ہیں۔
قال اﷲ تعالیٰ: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: طواف البیت صلٰوۃ و قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: الدعاء ھو العبادۃ ثم تلا قولہ تعالٰی: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۔ وقال اﷲ تعالیٰ: وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ
(تجھ ہی کو پوجتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اور فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے: