فائدہ: یاد رہے کہ ہر لفظ کے آخر میں ’’تاء‘‘ دیکھ کر اُس کلمہ کے مؤنث ہونے کا فیصلہ کر دینا ٹھیک نہیں ؛ کیوں کہ بعض جگہ مذکر کے نام کے آخر میں بھی ’’تاء‘‘ داخل ہوتی ہے، جیسے: طَلْحَۃٌ، اور کبھی مصدرکے آخر میں بھی ’’تاء‘‘ آتی ہے؛ حالاں کہ مصدرمیں تذکیر و تانیث مساوی ہے(۱)۔
وَتَائٌ زِیْدَ فِیْہِ لَیْسَ لِلتَّانِیْثِ، خُذْ ھٰذا
ۃ
وَلَمْ یُفْرَقْ بِتَائٍ فِیْہِ، تَذْ کِیْرٌ وَ تَانِیْثُ
نیز مُبالَغہ کے صیغے کے آخر میں کبھی ’’تاء‘‘ بہ غرضِ مبالغہ زیادہ کی جاتی ہے، جو تانیث کے لیے نہیں ہے (۲)۔
ـوقت مذکر مستعمل ہوتا ہے۔ اِسی طرح لفظِ مَنْ اسمِ موصول کی طرف لوٹنے والی ضمیربھی لفظ اور معنیٰ کے لحاظ سے مذکر ومؤنث مستعمل ہوتی ہے۔ یستوي فیہا المفرد والمثنیٰ والمجموع والمذکر والمؤنث۔ (شرح جامی)
(۱)یاد رہے کہ وہ مصدر جو ’’تاء‘‘ کے ساتھ ہو وہ مذکر ومؤنث ہوتا ہے، (یعنی اُس کی طرف مؤنث کی ضمیر بھی راجع ہو سکتی ہے)۔ (رشیدیہ:۹)
(۲)التائُ للمُبالغَۃِ فيْ: فَعَلَۃٌ، فَعَّالَۃٌ، فَاعِلَۃٌ، فَعُوْلَۃٌ، مِفْعَالَۃٌ؛ ولیستْ فارقۃً بینَ المُذکرِ وَالمُؤنثِ۔ (معجم القواعد:۸۶)
فائدہ:مبالغہ میں تاء کو تذکیر وتانیث میں وجہ فرق نہیں بنایاگیا ۔