(۱)ابواب (۲)صیغوں (۳)صِلوں (۴)تذکیر و تانیث (۵)واحد، تثنیہ و جمع (۶) اور اَضداد کا ضرور لِحاظ رکھیں ؛ کیوں کہ بسااوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ، صاحبِ کتاب کسی تاویل سے کلمۂ مؤنث کی طرف مذکر کی ضمیر، اور کسی لفظِ مذکر کی طرف مؤنث کی ضمیر راجع کر تے ہیں (۱)۔
ـکوئی تغیر(حذف ابدال اور ادغام وغیرہ)ہوا ہے۔
فائدہ: یاد رہے کہ عربی میں مستعمل الفاظ کی بڑی تعداد اسمائے مشتقہ اور افعالِ مشتقہ کی ہیں ؛ لہٰذا اصل نکالنے کی مشق اشد ضروری ہے،بہ وقتِ ضرورت اپنے استاذ محترم سے مراجَعت کر کے اُن کی تصویب وتصحیح کرلی جائے۔
(۳)اگر کسی صیغے کی تلاش مقصود ہے تو اُس کو باب کے میزان (یعنی باب کے اُسی صیغے) کے ساتھ اِس طرح موازنہ کرو کہ، وزن کے زائد حروف اور حرکات وسکنات ساتھ موزون کے زائد حروف کا مع حرکات وسکنات کے تقابل درست ہورہا ہو،جیسے: اِجْتَنَبَ کا تقابل اِفْتَعَلَ سے؛ اور تَقَبَّلَ کا تَفَعَّلَ سے درست ہورہا ہے۔اسی طرح تدعون اصل میں تدعوون بروزن تفعلون تھااور یرمون دراصل یرمیون بروزن یفعلون تھا ۔ اب ف،ع،ل کے مقابل حروف اصلی ہوں گے اور مابقیہ حروف زائد شمار ہوں گے، جیسے:تدعوون میں د،ع، اور واواصلی ہیں اور باقی تاء واو اور نون زائد ہے۔
فائدہ: موازنہ کرتے ہوئے حروفِ زیادت، حروفِ حذف، حروفِ ابدال اور حروفِ ادغام کو بھی ملحوظ رکھیں ۔
حروفِ زیادت دس ہیں : جن کا مجموعہ سألتمونیہا ہے۔ حروفِ حذف گیارہ ہیں : جن کا مجموعہ ’’ہو حفي بخائنۃ‘‘ ہے۔ حروفِ ابدال گیارہ ہیں : جن کا مجموعہ ’’اتجد من وطیہا‘‘ ہے۔ حروفِ ادغام تیرہ ہیں : ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ن۔
ملاحظہ: فعل کے صیغے کی تعیین کرنے کے لیے اُس فعل کی صَرفِ صغیر کرو، اب اگر یہ فعل مثلاً فعلِ مضارع ہے اور واحد کا صیغہ ہے تو اُس فعل کے صرف صیغہائے واحد -پانچوں صیغوں - کی گردان کرو، اِسی طرح تثنیہ وجمع کی صورت میں اُن کی گردان کرو، جیسے ہمیں ’’تَنْصُرْنَ‘‘ صیغۂ جمع مؤنث حاضر کو معلوم کرنا منظور ہے، تو حسبِ ذیل طریقہ اختیار کرو:
نَصَرَ، یَنْصُرُ، نَصْراً فَھُوَ نَاصِرٌ؛ ونُصِرَ یُنْصَرُ نَصْراً فَھُوَ مَنْصُوْرٌ؛ الأمرُ مِنہ اُنْصُرْ، والنَّھيُ عنْہ لاتَنْصُرْ؛ الظَّرفُ مِنہ مَنْصَرٌ، الآلۃُ منْہٗ مِنْصَرٌ، مِنْصَرَۃٌ، مِنْصَارٌ،وَتَثْنِیَتُہُمَا مَنْصَرَانِ وَمِنْصَرَانِ وَمِنْصَارَانِ وَالْجَمْعُ مِنْہُمَا مَنَاصِرُ وَمَنَاصِیْرُ؛ أَفْعَلُ التَّفْضِیْلِ مِنْہٗ اَنْصَرُ، وَالمُؤَنَّثُ منہٗ نُصْرَیٰ، وتَثْنِیَتُہُمَا أَنْصَرَانِ وَنُصْرَیَانِ؛ وَالجَمْعُ مِنْہُمَا أَنْصَرُوْنَ وَأَنَاصِرُ وَنُصَرٌ وَنُصْرَیَاتٌ۔سے نَصَرَ: یَنْصُرُ، تَنْصُرُ، تَنْصُرُ؛ تَنْصُرِیْنَ، تَنْصُرَانِ، تَنْصُرْنَ۔جس میں فعل کے وزن کے لیے عموماً تعلیل شدہ کلمۂ متحرک کو ساکن، ساکن کو متحرک اور کلمۂ محذوف کو بہ قواعدِ صَرف ظاہر کریں ، مثلاً: تَمُدُّ، تَمْدُدُ؛ یَرْمِیْ یَرْمِيُ؛ رامٍ، رَامِیُنْ۔
تنبیہ: لغت دیکھنے کی ایسی مشق کی جائے کہ ہم کسی بھی لفظ کو ۳۰؍۴۰ سیکنڈ میں نکال سکیں ؛ تاکہ ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ ہو؛ کیوں کہ یومیہ دس بیس منٹ کا نقصان ماہانہ پانچ دس گھنٹے کا خسارہ ہے، اِس سے غافل نہ رہا جائے۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضیٰ۔
(۱)مثلاً دہلی کو بقعۃ کی تاویل میں لیں تو وہ مؤنث مستعمل ہوتا ہے، اور موضع کی تأویل میں لینے کیغ