[ا] جب ’’إلاّ‘‘ ایسی جمع نکرہ کے بعد آئے جو نہ تو جنسِ مستغرق ہو، جیسے: ماجَا ئَ نِي رَجُلٌإلاّ…، یا رِجَالٌ إلاّ…، -کہ نکرہ سیاقِ نفی میں عموم کا فائدہ دیتا ہے- اور نہ ہی اُس جنس کا بعض ہو جس کے عدد معلوم ہوں ، جیسے: لہٗ عَليَّ عَشَرَۃُ دَراہِمَ یا عِشْرینَ درہماً تو ایسا ’’إِلاّ‘‘ بہ معنیٰ ’’غَیْر‘‘(۱) ہو گا، جیسے: لا إلٰہ إِلاَّ اللّٰہُ۔
[۲] ’’إِلاّ‘‘ پر جب واو داخل ہو تووہإِنْ شرطیہ اور لاَ نافیہ سے مرکب ہے،جس کے فعل کو معطوف علیہ مُثبت کے قرینے سے حذف کیا گیا ہے، جیسے: العَدَدُ إِنْ کانَ مُنْقَسِمًا بمُتَسَاوِیَیْنِ فَہُوَ زَوْجٌ وَ إِلاّ فَہُوَ فَرْدٌ؛ أَيْ وَ إِنْ لَمْ یَکُنْ مُنْقَسِماً بِمُتسَاوِیَیْنِ، فَہُوَ فَرْدٌ۔ خوب سمجھ لو۔
۷-إنْ:شرطیّہ ہوتا ہے اگر دو جملوں پر داخل ہو، [جیسے: إنْ أَکرمتَنيْ أَکرمتُکَ، إنْ تَضربنِيْ أَضَرِبْکَ]۔
[۱] اگر ’’إنْ‘‘ ایسے فعلِ نا قص پر داخل ہو جس کی خبر پر ’’لام‘‘ تاکید ہے تو یہ ’’إِن‘‘ مُخفَّفہ مِنَ المُثَقَّلَہ ہے، جس کا اسم، ضمیرِ شان محذوف ہے، اور بعد میں واقع ہونے والا جملہ فعلیہ اُس کی خبر واقع ہے، [کَقَوْلِہِ تَعَالیٰ: {إِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الغَافِلِیْنَ}](۲)۔
(۱)کما في الہدایۃ:ولو قال لہ: ’’عليَّ مائۃُ درہمٍ إلا دینارا أو إلا قفیز حنطۃ‘‘ لزمہ مائۃ درہم إلا قیمۃ الدینار [أي غیر الدینار]أو القفیز، وہذا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف۔ (ہدایہ ثالث )
(۲)واضح ہو کہ ’’إنّ‘‘ مکسورہ گیارہ جگہوں میں آتا ہے: ابتدائے کلام میں ، مبتدا کی خبر میں ، جب کہ خبر پر لامِ تاکید ہو، قول کے بعد، قَسم کے بعد، موصول کے بعد، ندا کے بعد، حتّٰیابتدائیہ کے بعد، حرفِ تصدیق کے بعد، حرفِ تنبیہ کے بعد اور واو حالیہ کے بعد۔
’’أنّ‘‘ مفتوحہ دس جگہوں میں آتا ہے: درمیانی کلام میں ، ’’عِلْم‘‘ کے بعد، ’’ظن‘‘ کے بعد، جب کہ مجرور ہو، مضاف الیہ ہو، ’’لو‘‘ کے بعد، ’’لولا‘‘ تحضیضیہ یا شرطیہ کے بعد، مَنْ شرطیہ کے بعد، حتیّٰ جارہ یا عاطفہ کے بعد اور ’’مذ، منذ‘‘ کے بعد۔مرتب
اتماماً للفائدہ أن مصدریہ اور إنْ جازمہ کے مقدر ہونے کی جگہیں ذکر کی جاتی ہیں ؛ تاکہ فعل کا اعراب سمجھ میں آسکے۔
أَنْ(مصدریہ) سات چیزوں کے بعد مقدر ہوتا ہے: (۱)حتی کے بعد، جیسے: أسلمتُ حَتَّی أَدخلَ البَلدَ۔ (۲) اُس فاء کے بعد جو امر، نہی، استفہام، نفی، تمنی اور عرض کے جواب میں واقع ہو، جیسے: زُرنِيْ فأکرمَکَ۔ (۳)مذکورہغ