جاتا ہے]، جس کے بعد ’’اَنْ‘‘ مقدر ہوتا ہے جو اِس مضارع کا ناصب ہوگا، [جیسے: لاتَأکُلِ السَّمکَ وَتَشربَ اللبنَ: مچھلی نہ کھاؤ دودھ پینے کے ساتھ، کہ یہاں لاتشرب اللبن کہنا صحیح نہیں ہے]۔
[۲] اگر جملہ فعلیہ میں ’’واو‘‘ کسی اسم پر داخل ہو اہو، اور اُس جگہ عطف کرنا بھی جا ئز ہوتو اُس واو کو عاطفہ کے ساتھ ’’واو‘‘ بہ معنیٰ ’’مع‘‘ بھی بنا سکتے ہیں ، [جیسے: جِئْتُ أَنا وَزیداً، وَزیدٌ:مَیں زید کے ساتھ آیا، مَیں اور زید دونوں آئے]؛ لیکن اگر اُس جگہ عطف کرنا ممنوع ہو تو اب اُس واو کو ’’واو‘‘ بہ معنیٰ ’’مع‘‘ بنادو [جیسے: جِئْتُ وَزَیداً] ؛ورنہ پھر اُس واو کو ’’واو‘‘ قسمیہ بناؤ، [جیسے: فَلا وَاللّٰہِ لایَبقیٰ أُناسٌ فَتیً حَتَّاکَ یا ابنَ أَبيْ زِیادٍ]۔
[۳]اگر ’’واو‘‘ جملہ اسمیہ میں آئے اور عطف جائز ہو تو اُسے ’’عاطفہ‘‘ ہی بناؤ؛ [جیسے: مَا لِزَیدٍ وعَمرٍو] ورنہ فعلِ معنوی کا ’’مفعول معہ‘‘ بناؤ،[جیسے: ما لَکَ وزَیداً، أي: مَاتصنعُ زیداً](۱)۔
[۴] اگر دو جملے اسمیہ ہوں یا فعلیہ، خواہ وہ دونوں فعل، فعلِ ماضی ہوں یا مضارع، اُن کے درمیان واقع ہونے والا ’’واو‘‘ بھی عاطفہ ہوگا، [جیسے: زیدٌ عالمٌ، وبکرٌ فاضلٌ؛ اُدخلُوا البابَ سُجَّداً، وَّقولُوا حِطَّۃٌ]۔
[۵]اگر پہلا جملہ فعلیہ ہو اور دوسرا اسمیہ، تو اُن کے درمیان واقع ہونے والا ’’واو‘‘ حالیہ ہو گا، اور یہی حکم اُس وقت ہے جب کہ پہلا جملہ ’’ماضَوِیہ‘‘ ہو اور دوسرا جملہ ’’مضارعیہ‘‘، [جیسے: جَا.8ئَنيْ زَیدٌ وغُلامُہٗ راکبٌ؛ جَا.8ئَنيْ زَیدٌ وَ یَرکبُ غُلامُہٗ]۔
[۶]اگر واو لفظِ ’’إِلاّ‘‘ کے بعد آئے تو وہ واو زائدہ ہوگا،جیسے:{وَمَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ إِلاَّ وَہُم مُّشْرِکُونَ}
[۷]بسا اوقات اشعار کے شروع میں ’’واو‘‘ بہ معنیٰ ’’رُبّ‘‘ ہو تا ہے،[جیسے: وَبَلدٍ لَیسَ بِہا أَنیسٗ٭ إلا الیَعافیرَ وإلا العِیسَ]۔
(۱) تفصیل کے لیے’’ ہدایت النحو‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔