دعویٰ کے بعد ’’تعلیلیہ‘‘ ہو تا ہے، [جیسے: لِأنّ… اِس کی تفصیل ’’کلماتِ جواب ودلیل‘‘ ضمن میں آرہی ہے]، جب کے باقی معانی کا مدار سماعِ عرب پر موقوف ہے۔
۳- ’’مِنْ‘‘: اِس کی اصل وضع تو ’’ابتداء غایت‘‘ کے لیے ہے، [جیسے: سِرْتُ مِنَ البَصَرَۃِ إِلَی الکُوْفۃِ]۔اور اکثر ’’مَا‘‘ موصولہ کے صلہ کے بعدواقع ہونے والا ’’مِنْ‘‘بیانیہ ہو تا ہے، جو ترکیب میں حال واقع ہو تا ہے، جس کا معنیٰ اردو زبان میں لفظِ ’’یعنی‘‘ سے ہوتا ہے۔ اِس کی علامت یہ ہے کہ اُس کی جگہ موصول کا رکھنا صحیح ہو، [جیسے: اِشترَی کُلٌّ مِن الطُّلابِ مَا اِحتَاجوْا إلیہِ من الاقْلامِ وَالکراریسِ، أي التي ہي الأقلام والکراریسُ]۔
باقی علامتیں شرح مأۃ عامل کے حاشیے میں واضح طور پر مسطور ہیں ۔
۴-حتّٰی:عاطفہ بھی ہو تا ہے اورجارہ بھی۔ اگر ’’حتّٰی‘‘ کے بعد فعل واقع ہوتو اُس حتّٰی کے بعد اَنْمصدریہ مقدر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے فعل منصوب ہوگا(۱) [جیسے: حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَاکِتَاباً نَّقْرَؤُہٗ]۔
۵- واو:عاطفہ ہو تاہے، جس کے ما قبل کو ترکیب میں ’’معطوف علیہ‘‘ کہا جاتا ہے،اور ما بعد کو ’’معطوف‘‘۔
[۱] ہاں ! اگروہ واو ایسے فعلِ مضارع کے شروع میں آیا ہے، جہاں ’’معطوف علیہ‘‘ کے ما قبل عبارت کو معطوف کے شروع میں مقدر ماننا صحیح نہ ہو ،یعنی ما قبل کو ما بعد کے ساتھ ملا نے سے معنیٰ فاسد (۲) ہو جاتا ہو، تو یقین جا نیے کہ یہ واو ’’واوِ صرف‘‘ ہے، [اُسے واوِ معیت بھی کہا
( ۱)حتیٰ جارہ وعاطفہ میں سطحی فرق یہ ہے : حتیّٰ جارہ، انتہائِ غایت یا بہ معنیٰ ’’کَيْ‘‘ علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے؛ جب کہ عاطفہ بہ معنیٰ ’’مع‘‘ مستعمل ہوتا ہے، یعنی ما بعد کو ما قبل کے حکم میں داخل کرتا ہے۔ ایک حتیٰ ابتدائیہ بھی ہوتا ہے، جس کے مابعد والے فعلِ مضارع پر رفع آتا ہے۔مرتب
(۲) فائدہ: عطف کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ، جس کلمے کو ہم ترکیب میں ’’معطوف علیہ‘‘ قرار دیں گے اُس کے ما قبل والی عبارت معطوف کے شروع میں بھی مقدر ہوگی۔
یاد رہے کہ، معطوف علیہ کی پہچان بڑی اہمیت کی حامل ہے، اگر پہچان میں دِقَّت ہوتو استاذِ محترم سے رجوع کیا جائے، اِس میں شرم وحیا نہ کی جائے؛ کیوں کہ شرم وحیا کے ساتھ حصولِ علم مشکل ہے۔العبد