(۳)’’کب، کہاں ‘‘؟ کے جواب میں مفعول فیہ واقع ہوگا، [جیسے: صَامَ زَیدٌ یَوْمَ الجُمُعَۃِمیں ، زید نے کب روزہ رکھا؟ جَلسَ زَیدٌ خَلفَکَ میں ، زید کہاں بیٹھا؟]۔
(۴)[کیوں ؟ کے جواب میں مفعول لہ واقع ہوگا، جیسے: ضَرَبَ زَیدٌ عَمرواً تادیباً میں ، زید نے عمرو کو کیوں مارا؟](۱)۔
(۵)کیسے؟ کے جواب میں حال واقع ہوگا، [جیسے: جَائَ نيْ زَیدٌ رَاکِباً میں ، زید
ـہے۔(معجم القواعد:۱۷۴)
فائدہ: افعالِ متعدیہ کی تین قسمیں ہیں : (۱)متعدی بہ یک مفعول (۲)متعدی بہ دو مفعول (۳)متعدی بہ سہ مفعول۔ جن میں سے اخیری دو قِسم کی فہرست حسبِ ذیل ہے:
فعلِ متعدی بہ دو مفعول کی دو قِسمیں ہیں : (۱)وہ متعدی بہ دو مفعول جن کے دو مفعول آپس میں مبتدا خبر ہوتے ہیں ،حسبِ ذیل ہیں :
[۱] افعالِ رُجحانَ: ظَنَّ، خَالَ، حَسِبَ، زَعَمَ، جَعَلَ، عَدَّ، حَجَا، ہَبْ۔ [۲] افعال یقین: رَأَی، عَلِمَ، وَجَدَ، ألْفیٰ، دَرَی، تَعَلَّمَ۔[۳]افعال تحویل: صَیَّرَ، تَرَکَ، غادَرَ، وَہَبَ، تَخِذَ، اتَّخَذَ۔
[۲]وہ متعدی بہ دو مفعول جن کے دو مفعول آپس میں مبتدا خبر نہیں ہوتے، اِن میں سے کثیر الاستعمال افعال یہ ہیں :کَسا، رَزَقَ، أطْعَمَ، سَقیٰ، زَوَّدَ، أسکَنَ، أعطیٰ۔
فائدہ: وہ متعدی بہ دو مفعول جن کا مفعولِ ثانی بہ تقدیرِ حرفِ جر آتا ہے، وہ یہ ہیں : أمَرَ، اسْتَغفَرَ، اخْتَارَ، کَنیّٰ، سَمیّٰ، دَعا، صَدَقَ، زَوَّجَ، کَالَ؛ نحو: اسْتَغفِرُ اللّہ ذنباً أی مِن الذَنْبِ۔
[۳]وہ افعال جو متعدی بہ سہ مفعول ہیں ، یہ ہیں : أعْلَمَ، أرَیٰ،أنْبَأ، أخْبَرَ، خَبَّرَ،نَبَّأ،حَدَّثَ۔
(۱)مفعول لہ کے ’’لام‘‘ کو حذف کرنے کے لیے چار شرطیں ہیں : (۱)مفعول لہ مصدر ہو (۲)علت بیان کرنے کے لیے ذکر کیا جائے (۳)فعلِ معلل، (جس کی علت بیان کی جائے) اور مفعول لہ دونوں کا زمانہ ایک ہو (۴)ان دونوں کا فاعل ایک ہو۔(شرحِ شذور الذہب)
اِسی وجہ سے ’’شرح تہذیب‘‘ میں (والصلاۃ والسلام علی من أرسلہ ھدیً) میں ’’ھدیً‘‘ کی ترکیب بیان کرتے ہوئے شارح نے لکھاہے کہ: ’’ھدیً‘‘ کو ’’أرسلہ‘‘ کی ضمیرِ فاعل یا مفعول سے ’’حال‘‘ اور ’’مفعول لہ‘‘ دونوں مان سکتے ہیں ۔ اب اگر اِسے حال بنائیں تو ترجَمہ یہ ہوگا: ’’صلاۃ وسلام ہو اُس ذاتِ گرامی پر جن کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا، حال یہ کہ اللہ تعالیٰ ہدایت دینے والے ہیں یا اللہ کے رسول ا ہدایت کا راستہ بتلانے والے ہیں ‘‘، اِس توجیہ پر ’’ھدیً‘‘بہ معنیٰ ہادٍ کا فاعل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ا دونوں ہو سکتے ہیں ؛ لیکن اگر ’’ھدیً‘‘ کو ’’ارسل‘‘ کا مفعول لہٗ بنائیں تو ’’ھدیً‘‘ کا فاعل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہوگی؛ کیوں کہ فعل معلَّل یعنی أرسل کا فاعل اللہ ہے۔ ’’ویراد بالھدی ھدایۃ اللّٰہ‘‘؛ اس بنا پر مفعول لہ میں حذفِ لام کی شرط یہ ہے کہ، دونوں کا فاعل ایک ہو۔ (شرح تہذیب:۳ )