رجلٌ عالمٌ، زیدُنِ العالمُ؛ جا.8ئني رجلٌ أيُّ رجلٍ؛ ہٰذہ المدرسَۃُ](۱)۔
(۱) موصوف صفت کے اہم اصول
کتب نحو میں موصوف صفت کے ضمن میں بعض ایسی اہم بحثیں ذکر کی جاتی ہیں جو فعل فاعل، مبتدا خبر اور نواسخِ جملہ میں بھی مفید ہیں ، لہٰذا اِس مضمون کو قدرے طول دیا گیا ہے۔
فائدہ۱): موصوف صفت میں مطا بَقت کب ہوگی؟
(۱)إنّ مطابقۃَ النعتِ بالمنعوتِ مشروطۃٌ، بأنْ لایَمنعَ من ذٰلک مانعٌ، کما في صَبورٍ، وجریحٍ؛ وأفعلُ التفضیلِ المقرونِ بمنْ، نحو: رأیتُ امرأۃً صبوراً أفضلَ من ھندٍ۔ (معجم القواعد:۲۱۹)
فائدہ۲): اقسامِ معرفہ میں بہ حیثیتِ تعریف فرقِ مراتب ہیں ، جن کی ترتیب یہ ہے: (۱)ضمائر(۲)علم (۳) مبہمات: [اسمائے اشارات، موصولات] (۴)معرف باللام (۵)معرفہ بہ ندا؛ اور مضاف اپنے مضاف الیہ کے مرتبے میں ہوگا۔ چوں کہ موصوف کا صفت سے اخص ہونا ضروری ہے؛ لہٰذا اقسامِ معرفہ کی صفات حسبِ ذیل طریقے سے آئے گی۔
اسمِ اشارہ کی صفت معرف باللام سے آئے گی، جیسے: ہٰذا العالمُ۔ معرف باللام کی صفت معرف باللام، یا مضاف الی معرف باللام سے آئے گی، جیسے: جاء الرجلُ العالمُ، جاء الرجلُ صاحبُ العلمِ۔ علم کی صفت معرف باللام، مضاف الیٰ معرف باللام یا مبہمات سے آئے گی، جیسے: جائني زیدُنِ العالمُ،صاحب العلم، الذي أبوہ عالم۔
فائدہ۳): نکرہ کی صفت کیسی ہوگی؟
تُوصفُ النکرۃُ المقصودۃُ إمّا بِنَکرَۃٍ مفردۃٍ، أوْ بجملۃٍ، أوْ بشبْہِ الجملۃِ، نحو: یاملِکاً یُحبُّ العُلمائَ، یا تلمیذاً في المدرسۃِ۔
فائدہ۴): وہ صفات جن کو مشتق کی تاویل میں کیا جاتا ہے۔
النعتُ المؤوّلُ بالمشتقِّ: [۱]إسمُ العددِ، نحو: رأیتُ رجالاً ثلاثۃً أيْ المَعدودینَ۔ [۲]الاسمُ المنسوبُ إلیہ، نحو: شاہدتُ رجلاً لبنانیّاً، أيْ منسوباً إلیٰ لَبنان۔ [۳]ذو بمعنیٰ صاحب،رأیت رجلا ذومال۔ (معجم القواعد۲۱۸بحذف)
فائدہ۵): موصوف مذکر عاقل، غیر عاقل یا اسمِ جنس ہو تو صفت کیسی آئے گی؟
(۱)إذاکانَ المنعوتُ جمعاً للعاقلِ فجازتْ في النعتِ المطابقۃُ وہي الأفضلُ، وجاز أنْ یکونَ مفرداً مؤنّثاً، نحو:البنونَ الصالِحونَ أوْ الصالحَۃُ۔
(۲)المنعوتُ إذا کان جمعاً لغیرِ العاقلِ، فیکونُ النعتُ بلفظِ المفردِ وہوَ الأجودُ، أوْ جمعُ مؤنثٍ سالمٍ، نحو:إشتریتُ کُتُباً کثیرۃً، کثیراتٍ۔
(۳)المنعوتُ إذا کان اسم جمعٍ فجاز في النعتِ الإفرادُ والجمعُ، نحو: عاشرْنا قوماً مُھذَّباً، مھذَّبین۔ (معجم القواعد:۲۱۹)
یعنی موصوف جب عاقل کی جمع ہو تو صفت کو موصوف کے مطابق جمع لانا بھی جائز ہے؛ بلکہ یہی افضل ہے، غ