تو وہ مؤنث ہے (۱)،[جیسے: فَاطِمَۃُ، حُبلَی، حَمْرائُ]۔
اگر وہ کلمہ مؤنثاتِ سماعیہ -جن کی تفصیل کتب نحو میں درج ہے- میں سے ہے تو وہ بھی مؤنث ہوگا(۲)۔
[اگر وہ اسم مؤنثاتِ معنویہ(۳) میں سے ہے تو وہ بھی مؤنث ہوگا۔
ـکانت ثالثۃ أصلھا الواو، کالعصا والربا۔ وإذا نون المقصورحذفت ألفہ لفظاً وثبتت خطّاً، مثل: کن فتیً یدعو إلیٰ ھدیً۔ (جامع الدروس اللغۃ العربیۃ:۱/۷۹)
یعنی اسم مقصور کے اخیر میں پایا جانے والا الف کبھی بھی اصلی نہیں ہوتا، وہ یاتو منقلبہ ہوگا یا زائدہ:
[۱]منقلبہ:وہ الف جو واو کا عوض ہو، جیسے: العصا، یا ’’یاء‘‘کا عوض ہو،جیسے: الفتی۔
[۲] زائدہ:وہ الف ہے جو یاتو تانیث کے لیے لایا گیا ہو، مثلاً: حبلی،عطشی؛ یا الحاق کے لیے لایا گیا ہو، جیسے: أرطی،ذفری، کہ اِن دونوں کو جعفر اور درھم کے ساتھ لاحق کرنے کے لیے اِن کے آخر میں الف زیادہ کیا گیا ہے،(کیوں کہ ارطیٰ کی اصل ارْطَيُ بر وزنِ جعْفَرُ ہے، اور ذِفریٰ کی اصل ذِفْرَيُ بر وزنِ دِرْہَمُ ہے)۔ اگر کلمہ چار حرفی یا اُس سے زائد ہو تو یہ الف یاء کی شکل میں لکھا جائے گا، جیسے: بشریٰاور مصطفیٰ،اور اگرکلمہ سہ حرفی ہو اور لام کلمہ میں اصلاً یاء ہو، مثلاً: الفتی،الندی تو اُس الف کو یاء کی شکل میں لکھاجائے گا۔ اور اگر لام کلمہ اصلاً واو ہو تو الف کی شکل میں لکھا جائے گا، جیسے: العصا، الربا، اور جب اسم مقصور پر تنوین ہوگی تو الف نہیں پڑھا جائے گا؛ البتہ لکھا ضرور جائے گا، جیسے: کن فتیً یدعو إلی ھدًی۔
(۱) تانیث بالالف المقصورہ اور تانیث بالالف الممدودہ سے مراد وہ الف ہیں جو نہ حروف اصلیہ میں سے ہوں نہ حرف اصلی سے بدل کر آئے ہوں ، اور نہ الحاق کے واسطے ہوں ؛ لہٰذا ’’کِسَائٌ، رِدَائٌ، العصَا، أسمائٌ، الہُدیٰ، الفَتیٰ‘‘وغیرہ مؤنث نہیں ہیں ؛ کیوں کہ اِن میں ’’الف‘‘ حروف اصلیہ کا عوض ہے۔
(۲)یاد رہے کہ، کلمات کی تذکیر وتانیث کا مدار قیاس پر نہیں ہے؛ کیوں کہ بہت سارے مذکر کلمات کے اخیر میں علامتِ تانیث داخل ہے، اور بہت سارے کلماتِ مؤنثہ علامتِ تانیث سے خالی ہیں ؛ لہٰذا کلمات کی تذکیر وتانیث کا مدار اہلِ زبان کے استعمال پر ہوگا۔ مثلاً: کھڑکی کے لیے عربی میں الشباک کا لفظ موضوع ہے جو کلامِ عرب میں مذکر مستعمل ہے، کہا جاتا ہے: الشباکُ مفتوح، جب کہ اردو میں مؤنث مستعمل ہے، جیسے: کہا جاتا ہے: کھڑکی کھلی ہے۔
(۳)المُؤنّثُ[۱]اللَّفظيُّ: وہوَاسمٌ لمُذکّرٍ فیہِ عَلامَۃُ التأنیثِ،کمعاوِیَۃَ۔ [۲]والمَعْنَوِیُّ: وہوَ اسمٌ لمُؤنَّثٍ خَالٍ مِنْ عَلامَۃِ التأنیثِ، کمَرْیَمَ۔ [۳] واللَّفْظيُّ وَالمَعْنَوِیُّ: وہوَ مُؤنّثٌ فیہِ عَلامَۃُ التأنیثِ، نحوُ: لَیْلیٰ۔
یعنی مؤنث لفظی: وہ مذکر کا نام ہے جس میں تانیث کی علامت ہو، جیسے: معاویۃ،طلحۃ(۲)مؤنث معنوی وہ مؤنث ہے جو علامت تانیث سے خالی ہو، جیسے: مریم، زینب (۳) مؤنث لفظی ومعنوی: وہ مؤنث ہے جس میں تانیثغ