Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

58 - 214
تو وہ مؤنث ہے (۱)،[جیسے: فَاطِمَۃُ، حُبلَی، حَمْرائُ]۔
	اگر وہ کلمہ مؤنثاتِ سماعیہ -جن کی تفصیل کتب نحو میں درج ہے- میں سے ہے تو وہ بھی مؤنث ہوگا(۲)۔
	[اگر وہ اسم مؤنثاتِ معنویہ(۳) میں سے ہے تو وہ بھی مؤنث ہوگا۔
                                              
 ـکانت ثالثۃ أصلھا الواو، کالعصا والربا۔ وإذا نون المقصورحذفت ألفہ لفظاً وثبتت خطّاً، مثل: کن فتیً یدعو إلیٰ ھدیً۔ (جامع الدروس اللغۃ العربیۃ:۱/۷۹)
	یعنی اسم مقصور کے اخیر میں پایا جانے والا الف کبھی بھی اصلی نہیں ہوتا، وہ یاتو منقلبہ ہوگا یا زائدہ:
	[۱]منقلبہ:وہ الف جو واو کا عوض ہو، جیسے: العصا، یا ’’یاء‘‘کا عوض ہو،جیسے: الفتی۔
	[۲] زائدہ:وہ الف ہے جو یاتو تانیث کے لیے لایا گیا ہو، مثلاً: حبلی،عطشی؛ یا الحاق کے لیے لایا گیا ہو، جیسے: أرطی،ذفری، کہ اِن دونوں کو جعفر  اور درھم کے ساتھ لاحق کرنے کے لیے اِن کے آخر میں الف زیادہ کیا گیا ہے،(کیوں کہ ارطیٰ کی اصل ارْطَيُ بر وزنِ جعْفَرُ ہے، اور ذِفریٰ کی اصل ذِفْرَيُ بر وزنِ دِرْہَمُ ہے)۔ اگر کلمہ چار حرفی یا اُس سے زائد ہو تو یہ الف یاء کی شکل میں لکھا جائے گا، جیسے: بشریٰاور مصطفیٰ،اور اگرکلمہ سہ حرفی ہو اور لام کلمہ میں اصلاً یاء ہو، مثلاً: الفتی،الندی تو اُس الف کو یاء کی شکل میں لکھاجائے گا۔ اور اگر لام کلمہ اصلاً واو ہو تو الف کی شکل میں لکھا جائے گا، جیسے: العصا، الربا، اور جب اسم مقصور پر تنوین ہوگی تو الف نہیں پڑھا جائے گا؛ البتہ لکھا ضرور جائے گا، جیسے: کن فتیً یدعو إلی ھدًی۔
	(۱) تانیث بالالف المقصورہ اور تانیث بالالف الممدودہ سے مراد وہ الف ہیں جو نہ حروف اصلیہ میں سے ہوں نہ حرف اصلی سے بدل کر آئے ہوں ، اور نہ الحاق کے واسطے ہوں ؛ لہٰذا ’’کِسَائٌ، رِدَائٌ، العصَا، أسمائٌ، الہُدیٰ، الفَتیٰ‘‘وغیرہ مؤنث نہیں ہیں ؛ کیوں کہ اِن میں ’’الف‘‘ حروف اصلیہ کا عوض ہے۔ 
	(۲)یاد رہے کہ، کلمات کی تذکیر وتانیث کا مدار قیاس پر نہیں ہے؛ کیوں کہ بہت سارے مذکر کلمات کے اخیر میں علامتِ تانیث داخل ہے، اور بہت سارے کلماتِ مؤنثہ علامتِ تانیث سے خالی ہیں ؛ لہٰذا کلمات کی تذکیر وتانیث کا مدار اہلِ زبان کے استعمال پر ہوگا۔ مثلاً: کھڑکی کے لیے عربی میں الشباک کا لفظ موضوع ہے جو کلامِ عرب میں مذکر مستعمل ہے، کہا جاتا ہے: الشباکُ مفتوح، جب کہ اردو میں مؤنث مستعمل ہے، جیسے: کہا جاتا ہے: کھڑکی کھلی ہے۔ 
	(۳)المُؤنّثُ[۱]اللَّفظيُّ: وہوَاسمٌ لمُذکّرٍ فیہِ عَلامَۃُ التأنیثِ،کمعاوِیَۃَ۔ [۲]والمَعْنَوِیُّ: وہوَ اسمٌ لمُؤنَّثٍ خَالٍ مِنْ عَلامَۃِ التأنیثِ، کمَرْیَمَ۔ [۳] واللَّفْظيُّ وَالمَعْنَوِیُّ: وہوَ مُؤنّثٌ فیہِ عَلامَۃُ التأنیثِ، نحوُ: لَیْلیٰ۔
	یعنی مؤنث لفظی: وہ مذکر کا نام ہے جس میں تانیث کی علامت ہو، جیسے: معاویۃ،طلحۃ(۲)مؤنث معنوی وہ مؤنث ہے جو علامت تانیث سے خالی ہو، جیسے: مریم، زینب (۳) مؤنث لفظی ومعنوی: وہ مؤنث ہے جس میں تانیثغ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter