استمداد کے بعد- ’’تاء‘‘ کا نہ لگنا متیقن ہوجائے، تو یقین جانو کہ یہ غیرمنصرف ہے، [جیسے: أَحمدُ، یَشکُرُ، نَرْجِسُ]؛ ورنہ منصرف[جیسے: یَعْمَلٌ:باربردار،قوی]۔
فائدہ: مَفْعَلُ، فَعْلِ، فُعَالُ(۱)، فَعَلُ، فُعَلُ(۲)، فَعَالِکے وزن پر بعض ایسے اسم بھی آئے ہیں کہ جن کو آپ کے منصرف پڑھنے پر استاذ صاحب غیر منصرف پڑھنے کا حکم فرمائیں گے، باوجودیکہ آپ کو ایک سبب کے عِلاوہ کوئی دوسرا سبب نظر نہیں آتا، یعنی آپ کو صرف علمیت نظر آتی ہے[،جسے: عُمَرُ، مُضَرُ]، یا وصفیت[جیسے: ثُلاثُ وَ مَثْلَثُ، اُخَرُ، جُمَعُ]، تو معلوم ہونا چاہیے کہ، ایسے الفاظ میں دوسرا سبب عدل(۳) ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ کلمہ غیرمنصرف ہوگا(۴)۔ خوب سمجھ لو۔
(۱)فُعالُ کثُلاثُ، ومَفْعَلُ کمَثلثُ، وفُعَلُ کعُمَرُ وأخَرُ، وفَعْلِ کأمْسِ، فَعَلُ کسحرُ، وفَعالِ کقَطامِ۔ (درایہ:۵۸)مرتب
(۲)یاد رہے کہ وہ اعلام جو ’’فُعَلُ‘‘ کے وزن پر غیر منصرف مستعمل ہیں اور اُن میں علمیت کے عِلاوہ کوئی دوسرا سبب اسبابِ منع صرف میں سے نہیں ہے، تو اُن کو ’’فاعِلٌ‘‘ کے وزن سے معدول مانا ہے۔
إنّ النحاۃَ وجدوا الأعلامَ التي علیٰ وزن فُعَلَ غیرَ منصرفۃٍ ولیس فیہا إلاّ العلمیّۃُ، وہي لاتکفي وحدھا في منع الصرفِ، فقدَّروا أنّہا معدولۃٌ عن وزنِ فاعلٍ، وہي خمسۃ عشر علماً: عُمَرُ، زُفَرُ، زُحَلُ، ثُعَلُ، جُشَمُ، جُمَحُ، قُزَحُ، دُلَفُ، عُصَمُ، جُحیٰ، بُلَعُ، مُضَرُ، ھُبَلُ، ھُذَلُ، قُثَمُ۔ ویُلحق بہا: جُمَعُ، کُتَعُ، بُتَعُ، بُصَعُ۔ (جامع الدروس ۲؍۱۵۲)مرتب
یعنی نحویوں نے جب فُعَلُ کے وزن پر آنے والے کلمات کو غیر منصرف پایا، حالاں کہ اُن میں سوائے علمیت (معرفہ) کے اَور کوئی دوسرا سبب نہیں پایا جاتا، اور تنہا علمیت کلمہ کو غیر منصرف بنانے میں کافی نہیں ہے تو اُنھوں نے یہ فرض کرلیا کہ وہ (فُعَلُ کے وزن پر آنے والے کلمے) فاعِلٌکے وزن سے معدول ہیں ، اور وہ مذکورہ پندرہ اعلام ہیں ، اور اِن کے ساتھ چار اسماء اَور لاحق کیے گئے ہیں : جُمَعُ، کُتَعُ، بُتَعُ، بُصَعُ۔
(۳)العدل ہو کون الاسمِ مخرجاً عن صورتہ الموافقۃ للأصل والقانون إلیٰ صورۃٍ مخالفۃٍ للقیاس مع بقاء مادّتہ۔ مصنف۔
عدل: کسی اسم کا اصل اور قانون کے مطابق آنے والی صورتِ اصلیہ سے نکل کر خلافِ قیاس دوسری صورت میں چلاجانا، مادہ اور معنیٰ کے برقرار رہتے ہوئے۔
(۴)لأن العدل أمرٌ اعتباريٌ وفرضيٌ، ولابد في اعتبار العدل من أمرینِ: (۱)وجود أصل للاسم المعدول،حقیقیاً کان أو تقدیریاً۔ (۲)اعتبار إخراجہ عن ذلک الأصل۔ فإن کان الأصل محقّقاً غ