مَبْحَثٍ لِیَتَجَلّیٰ المُرَادُ(۱)۔
علم المطالعۃ: عِلْمٌ یُعْرَفُ بِہِ مُرَادُ المُحَرِّرِ بِتَحْرِیْرِہِ۔
موضوع: علم المطالعہ کا موضوع: ’’المُحَرَّرُمِنْ حَیْثُ ہُوَ‘‘۔
غرض: علم المطالعہ کے قوانین کالِحاظ کرنے والا مُحرِّر کی مراد کو صحیح پیمانے پر سمجھنے میں کامیاب ہوتاہے، اور خطا سے محفوظ رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) المطالعۃُ: صرْفُ الفکرِ لیَتجلیّٰ المطلوبُ۔ کسی بحث میں غور وفکر کرنا؛ تاکہ مراد اچھی طرح واضح ہوجائے، یعنی واقفیّت پیدا کرنے کی غرض سے کسی چیز کو دیکھنا۔
وعلمُ المُطالعۃِ: علمٌ باحِث عن کَیفیَّۃ المطالعۃِ۔ والأحسنُ في التعریفِ: أَنَّ المطالعۃَ علمٌ یُعرَفُ بِہ مرادُ المُحرِّرِ بتحریرِہ۔
علم المطالعہ وہ علم ہے جو عبارت سے واقفیت پیدا کرنے کی کیفیت واضح کرے۔ یاوہ علم جس سے راقم کے مضمون (نوشتہ) کا مقصد معلوم کیا جائے۔
وغایتُہا(علمِ المطالعۃِ): الفوزُ بمُرادِہ حقًّا، والسلامۃُ عنِ الخَطَأِ وَالتَّخطِیَۃ۔
مصنف کے صحیح مقصدکو معلوم کرنے میں مُطالِع کا کامیاب ہونا، اور مقصدِ مصنف کے سمجھنے میں خطا واقع ہونے یاتقصیر کی طرف نسبت ہونے سے حفاظت۔
ومَوضوعُھا: المُحَرَّرُ مِنْ حیثُ ہُوَ، تحریر شدہ عبارت۔ (دستور العلماء ۳؍۳۲۴)انتہیٰ، مرتب۔