رکھتے ہوئے ہر لقمے کے ادائیگئ حق کی حتی الامکان فکر کرنا۔
۱) ہر کتاب سے استفادہ کرنے سے پہلے مصنفِ کتاب، استاذ محترم اور محسن انسانیت اسے لیکر اپنے تک کے تمام وسائط پر تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصال ثواب کرتے رہنا، کتاب کھولنے سے پہلے یہ دعا پڑھنا: بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلٰہَ إلاَّ اللّٰہ واللّٰہ أکبر، ولا حول ولاقوّۃ إلّا باللّٰہ العليِّ العظیم عددَ کلِّ حرفٍ کُتبَ ویُکتبُ أبدَ الآبدینَ ودھرَ الداہرینَ۔
۲) ہر فن و کتاب کو شروع کرنے سے پہلے اُس کا آسان ہونا اور بے حد مفید ہونا ذہن میں بٹھالیا جائے، جس سے پہاڑ بھی رائے کا دانہ بن جاتاہے؛ ورنہ مشکل سمجھنے کی صورت میں رائے کا دانہ بھی پہاڑ سے کم نہیں ہے۔
۳)کسی بھی فن وکتاب کے بابت یہ تصور کہ یہ تو مجھے کہاں سے سمجھ میں آئے گا؟ اِس بات کو حاشیۂ خَیال سے قطعاً خارج کردیں ، کیوں کہ نہ سمجھ میں آنے والی چیز کذبِ محض ہی ہے۔
۴) اکابرین و ماہرینِ فن کے متعیَّن کردہ نصابِ تعلیم کے مطابق ہر درجے میں شروع ہونے والے فنون کے متن اور نقشے کا بار بار استحضار کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ اُس فن کا مکمل حق ادا ہوسکے، اور دیگر کتب و فنون کو سمجھنے میں سہولت ہوسکے؛ کیوں کہ فنون آپس میں بے انتہامربوط ہیں ۔
۵) عربی سوم کے بعد روزانہ ہر کتاب کے اسباق کو ایک مرتبہ اپنی زبان سے ادا کریں ، اپنے علمی ساتھیوں سے علمی مذاکرہ کرنا تکرار سے بھی زیادہ مفید ہے۔ قیل مُطارحۃُ ساعہٍ خیرٌ من تکرار شھرٍ۔ اور فنی کتابوں میں کم ازکم کل گذشتہ کے پڑھے ہوئے اسباق کو تین مرتبہ، پرسوں کے اسباق کو دو مرتبہ اور ترسوں کے اسباق کو ایک مرتبہ نظر سے گذارنا امر لابُدِّی ہے۔
۶) دورانِ مطالعہ معلوم ہونے والے نکات کو اُس فن کی ذاتی دل چسپ کتاب میں ضبط کر لینا؛ تاکہ رجوع کرنے میں آسانی ہو۔ علمی مسئلہ کے حل ہونے پر اللہ ربُّ العزت کی تعریف کریں ؛ کیوں کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی زیادتیٔ علم کی وجہ بتلائی ہے: إنّما أدرکتُ العلمَ بالحمدِ والشکرِ۔
۷) فرائض الٰہیہ کو امر الٰہی سمجھ کر عظمت و شوق سے ادا کرنا، سنتِ نبویہ ا کو مقرِّب الیٰ اللہ و رسولہ کے استحضار کے ساتھ ادا کرنا، صبح و شام کی تسبیحات اوراد و وظائف کو پورا کرنا، روزانہ کسی ایک نفل نماز