کہ، اُس کے تلامذہ زمانے کے علما بن جائیں ، پس استاذ کے اعتقاد اور اُس کی شفقت کی برکت سے اس کا فرزند عالم بن جاتا ہے۔
علم کو ضیاع سے بچانا: ماحُفِظَ فرَّ، ومَاکُتبَ قَرَّ۔(تعلیم:۸۵)
العُمرُ قَصیرٌ، والعِلمُ کَثیرٌ، فیَنبغِيْ أَلاَّیُضیِّعَ الأوْقاتَ والساعاتِ، ویَغتنِمَ اللَّیاليَ والخَلَواتِ۔ (تعلیم:۸۷)
علم کا جو حصہ یاد کیا گیا وہ نکل گیا، اور جو لکھ لیا گیا وہ باقی رہا۔
انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے اور علم بہت زیادہ ہے؛ اِس لیے اوقات اور لمحات کو ضائع کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے، اور اِس کے لیے راتوں اور تنہائیوں کو غنیمت جانے۔
محنت ومشقت برداشت کرنا: لابدَّ لطالبِ العِلمِ منْ تَحمُّلِ المَشقَّۃِ وَالمَذَلَّۃِ فيْ طلبَ العلمِ، قیلَ: العلمُ عِزٌّ لاذُلَّ فیہِ، لایُدرکُ إلاَّ بِذُلٍّ لاعِزَّ فیہِ۔ (تعلیم:۸۸)
طالبِ علم کے لیے تحصیلِ علم میں مشقَّت اور ذلت کا برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔ کہا گیا ہے کہ:علم ایک ایسی عزت ہے جس میں ذلت کی آمیزش نہیں ، اور علم ایسی ذلت ہی سے حاصل ہوتا ہے جس میں کوئی عزت نہیں ۔
کثرت طعام و منام اوراختلاط مع الانام سے احتراز:وَمنَ الوَرعِ:انْ یَتحرَّزَ عنْ الشِّبعِ، وکثرۃِ النَّومِ،وَکثرۃِ الکلامِ فیْما لایَنفعُ۔ (تعلیم:۸۸)
پرہیز گاری یہ ہے کہ، شکم سیری، زیادہ سونے اور بے فائدہ چیزوں میں بسیار گوئی سے اجتناب کرے۔
غیبت اور لایعنی سے حفاظت: وصّٰی فقیہٌ منْ زُہّادِ الفُقہائِ طالبَ العلمِ: عَلیکَ أنْ تَتحرَّزَعنْ الغِیبۃِ وَعنْ مُجالسَۃِ المِکثارِ۔ وقالَ: إِنَّ منْ یُکثِرُ الکلامَ یَسرقُ عُمرَکَ وَیُضیِّعُ أوقاتَکَ۔ (تعلیم:۸۹)
ایک زاہد فقیہ نے ایک طالبِ علم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ: تم غیبت کرنے والے اور بسیار گو کے پاس اُٹھنے بیٹھنے سے بچو۔ اور فرمایا کہ: زیادہ بولنے والا شخص تمھاری عمر کی