ومن توقیرِہ: توقیرُ أَولادِہ ومنْ یَتعلّقُ بہِ۔ (تعلیم المتعلم)
استاذ کی تعظیم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ، اُن کے آگے نہ چلے، اُن کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے، اُن کے سامنے بغیر اُن کی اجازت کے گفتگو شروع نہ کرے، اُن کی موجودگی میں زیادہ نہ بولے، اُن کی رنجیدگی کے وقت کچھ نہ پوچھے۔ استاذ کی اولاد اور ان کے متعلقین کی تعظیم بھی استاذ ہی کی تعظیم ہے۔
کتاب کی عظمت: ومنْ تعظیمِ العِلمِ تَعظیمُ الکتابِ۔ فَینبغيْ لطالبِ العلمِ أَلاّ یأخذَ الکتابَ إلاّ بِطہارۃٍ۔
قالَ شمسُ الأئمۃِ الحلوانيْ: إنَّما نِلتُ ہٰذا العِلمَ بالتَّعظیمِ، فإنيْ ما أَخذتُ الکاغِذَ إلا بطَہارۃٍ۔ وہٰذا لأنَّ العلمَ نورٌ والوضوئُ نورٌ، فیَزدادُ نورُ العلمِ بہِ۔ (تعلیم المتعلم:۴۷)
کتاب کی تعظیم بھی علم ہی کی تعظیم ہے؛ لہٰذا طالبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ بغیر پاکی کے کتاب نہ لے۔
امام شمس الائمہ حلوانی فرماتے ہیں : میں نے اس علم کو تعظیم ہی سے حاصل کیا؛ اِس لیے کہ مَیں نے بغیر پاکی کے کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا، اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ، علم نور ہے اور وُضوبھی نور ہے، لہٰذا وُضوکے نور سے علم کے نور میں اضافہ ہوتا ہے۔
ساتھیوں کی تعظیم: ومنْ تَعظیمِ العِلمِ تَعظیمُ الشرکائِ۔
شرکائے درس کا ادب واحترام کرنا بھی علم کی تعظیم کا ایک جُزء ہے۔
علم کے خاطر خوشامد کرنا: التَّملُّقُ مَذموْمٌ إلاَّفيْ طلبِ العِلمِ، فإنَّہٗ لابدَّ مِن التَّملُّقِ للأستاذِ والشُّرکائِ وغَیرِہمْ للاِستِفادۃِ منْہُمْ۔ (تعلیم المتعلم:۸۸)
حصولِ علم کے خاطر خوشامدی قابلِ مذمت نہیں ؛ کہ استاذ اور شرکائے درس سے استفادے کے لیے اُن کی خوشامد کرنا ضروری ہے۔
استاذ اور ساتھیوں کی خوشامد: ویَنبغيْ أنْ یَتملَّقَ لأستاذہِ وَشُرکائہِ