بلندیوں پر پہنچتا ہے۔
تکبر تو ہمارے پرور دگار کی مخصوص صفت ہے، اس سے دور رہو، اور احتیاط برتو۔(تعلیم المتعلم:۳۵)
مشورہ کی اہمیت:
قالَ عليٌّص: مَا ہَلکَ امرُؤٌ مِنْ مَشورۃٍ۔(تعلیم المتعلم۳۸)
حضرت علی ص نے فرمایا کہ: کوئی انسان مشورہ کی وجہ سے ہلاک وبرباد نہیں ہوا۔
ادب واحترام: قِیلَ: مَا وصَلَ منْ وصلَ إلاّ بالحُرمۃِ، ومَا سقطَ مَنْ سَقطَ إلاَّ بترکِ الحُرمۃِ۔
جوبھی آدمی منزلِ مقصود پر پہنچا ہے وہ احترام ہی کے نتیجے میں پہنچا ہے، اور جو بھی پیچھے رہا وہ عزت واحترام کے نہ کرنے کی وجہ سے رہا۔
وقیلَ:الحُرمۃُ خیرٌمن الطاعۃِ۔أَلا یُرَی أنَّ الإنسانَ لایَکفُرُبالمَعصیۃِ، وإنما یَکفرُ بِترکِ الحُرمۃِ۔ (تعلیم المتعلم:۴۳)
ادب واحترام، اطاعت وفرمابرداری سے بھی بہتر ہے، کیا نہیں دیکھا جاتا کہ انسان معصیت کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا؛ لیکن بے حرمتی کی وجہ سے کافر سمجھا جاتا ہے۔
علماء اور اساتذہ کی تعظیم: قالَ مَشائخُنا: منْ اَرادَ أنْ یَکونَ اِبنہٗ عالماً یَنبغِيْ أنْ یُراعِيَ الغُربائَ من الفُقہائِ، ویُکرمَہمْ، ویُعظِّمَہمْ، ویُعطیَہمْ شیئاً؛ فإنْ لمْ یکنْ اِبنُہ عالماً یَکونُ حافدُہ عالماً۔ (تعلیم المتعلم:۴۳)
ہمارے مشائخ نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اُس کا بیٹا عالم بن جائے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ غریب فقہاء کا (مالی)خَیال رکھے، اُن کی عزت اور اُن کی تعظیم کرے، اور اُن کو کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔ پس اگر اُس کا بیٹا عالم نہ ہوا تو اُس کا پوتا عالم ہوگا۔
ومِنْ تَوقیرِ المُعلِّمِ: أنْ لا یَمشيَ أَمامَہ، وَلایَجلسَ مَکانَہٗ، ولا یَبتدأَ الکلامَ عندَہ إلا بإذنِہ، ولایَکثُرَ الکلامَ عندَہ، ولا یَسألَ شیئاً عندَ مَلامتِہ۔ (تعلیم المتعلم)