Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

190 - 214
…………………………………………………………
                                              
ـ جملۂ معترضہ کا اخیری کلام میں واقع ہونا لازم آتا ہے۔ خلاصۂ کلام بہ ایں وجہ اُس واو کا عاطفہ ہونا طے ہے؛ لیکن اُس کا معطوف علیہ کیا ہوگا؟ اِس میں دو احتمال ہیں : 
	اول: نعم الوکیل کا عطف ھو حسبي پورے جملہ پر ہوگا، جس میں مخصوص بالمدح ھو محذوف ہوگا، دوم: نعم الوکیل کا عطف حسبي بہ معنیٰ یحسبنی پر ہوگا جس کی تقدیری عبارت ھو نعم الوکیلہوگی، جس میں تکمیلِ مدح سے پہلے مخصوص بالمدح کو ذکر کرنا لازم آتا ہے جو خلافِ شائع ہے؛ کیوں کہ فعلِ مدح کا قاعدہ ہے کہ: مخصوص بالمدح کا تذکرہ لفظاً یاتقدیراً تکمیل مدح کے بعد ہی ہوتا ہے۔ (درایت النحو شرح ہدایت النحو) گویا احتمالِ اول میں حذف المخصوص اور احتمالِ ثانی میں تقدّم المخصوص لازم آتا ہے۔بہ ہر دو تقدیر مذکورہ عبارت میں جملۂ انشائیہ کا عطف جملۂ خبریہ پر کرنا لازم آتا ہے، جس کو اہلِ بلاغت بابِ وصل وفصل میں کمالِ انقطاع سے تعبیر کرتے ہیں ، جو جمہور نحات اور بُلغاء کے نزدیک ناجائز ہے، برخلاف بعض نحات کے؛ لیکن چوں کہ یہ عبارت حدیث میں بھی وارد ہے؛ لہٰذا علماء نے اِس مضمون کو طول دیا ہے۔
	اِس عبارت پر ہونے والے نقض (عطف الاِنشاء علی الاِخبار) کا جواب دیتے ہوئے علماء چار احتمالات ذکر کرتے ہیں : 
	(۱)عطف الانشاء علی الانشاء (۲)عطف الاخبار علیٰ الاخبار (۳)عطف الانشاء علیٰ المفرد (۴) عطف الانشاء علی الاخبار۔ اِن چاروں احتمالات کی تفصیل اور ہر احتمال پر ہونے والے نقض کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
	احتمالِ اول، عطف الانشاء علی الانشاء: یعنی ھو حسبي میں مدح بالکفایہ کا انشاء ہے نہ کہ اِخبار بالکفایہ، اور  نعم الوکیل میں مدحِ عام کا انشاء ہے، اِس احتمال کے اعتبار سے یہ عبارت عطف الانشاء علی الانشاء کے قبیل سے ہوگی؛ لیکن اِس احتمال پر بہ ایں طور رد کیا گیا ہے کہ جملۂ اسمیہ (ھو حسبي) کو انشاء (مدح بالکفایہ) کے معنیٰ میں لینا اقلِ قلیل ہے، جس پر کلام کو محمول کرنا مناسب نہیں ۔ 
	احتمالِ ثانی، عطف الاخبار علیٰ الاخبار: یعنی نعم الوکیل در حقیقت معطوف نہیں ہے؛ بلکہ حقیقتاً معطوف ھو مقول في حقہ:نعم الوکیل ہے، گویا نعم الوکیل اُس مبتدا کی خبر کا معمول ہے جو مبتدا اور خبر دونوں در حقیقت محذوف ہیں ، اور پورا جملہ خبریہ ہے، اور یہ ترکیب عطف الاِخبار علی الاِخبار کے قبیل سے ہے؛ لیکن اِس پر یہ رد کیا گیا ہے کہ، اِس احتمال میں بلادلیل تین امور کی تقدیر لازم آتی ہے: (۱)مقول في حقہ کو مقدر ماننا (۲)وہ مبتدا (ھو) کو مقدر ماننا جس کی خبر مقول في حقہ ہے (۳)نعم الوکیل کو خبر ماننا جو محض انشائِ مدح کے لیے ہے۔
	احتمالِ ثالث، عطف الاِنشاء علی المفرد: یعنی نعم الوکیل کا معطوف علیہ حسبي ہے، قطع نظر اُس کی تاویل (یحسبني) سے، جس میں حسبي مفرد ہے، اور یہ ترکیب عطف الانشاء علی المفرد کے قبیل سے ہے نہ کہ علی الاخبار؛ لیکن اِس پر یہ رد کیا گیا ہے کہ، فعل کے اسم پر عطف کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اسم، فعل کے معنیٰ میں ہو، جیسے: باری تعالیٰ کا فرمان: {فالق الإصباح، وجعل اللیل سکناً} أي فَلَقَ الإصباحَ؛ لہٰذا آپ کا حسبي میں یحسبني کی غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter