استینافیہ وارد ہوگا، جو اِس بات پر دال ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والی عبارت کسی سوالِ مقدر کا جواب ہے۔ وَتَقْرِیْرُہ ُ أَنَّ ہٰذِہِ القَاعِدَۃَ أَوِ التَّعْرِیْفَ لِمَ قُیِّدَ بِہٰذا القَیْدِ؟ وَ مَاحُکْمُ صُورَۃٍ غَیْرِ مُقَیَّدَۃٍ بِہٰذالقَیْدِ؟ أمَّا…(۱)۔
قاعدہ۲۰): ہر وہ فاء جو کسی مقسم کے اقسام کو بیان کرنے کے بعد کسی قسم کی تعریف پر واقع ہو تو وہ فاء تفسیریہ ہوگی۔
قاعدہ۲۱): مقسم اور اقسام کے درمیان شارحین اسمِ عدد کالفظ بڑھاتے ہیں ، جیسے: الکَلِمَۃُ [ثَلاَثَۃُ اَقْسَامٍ]: اِسْمٌ وَ فِعْلٌ وَحَرْفٌ، جس سے مقصود مصنف پر ہونے والے اعتراض کو رفع کرنا ہوتا ہے،کہ حمل الاقسام علیٰ المقسم(۲)کی صورت میں حَمْلُ الخَاصِّ عَلیٰ
(۱) جیسے:[۱] م: أما الخاصُّ فکلُّ لفظٍ وضعَ لمعنی معلومٍ علی الانفراد یعنی خاص وہ لفظ ہے جو انفرادی طور پر متعین معنیٰ کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ اِس تعریف میں شارح، ماتنِ علام کے لفظِ کل کو استعمال فرمانے پر ہونے والے نقض اور جواب کو تحریر فرماتے ہیں : ((وأمّا ذکرُ)) کلمۃِ ’’کلٍ‘‘ فإنہٗ ((وإنْ کان مستنکراً في التعریفاتِ منشائِ اعتراض)) في اصطلاح المنطق؛ ولٰکن القصد ہٰہنا لبیان الإطراد (المنع عن دخول الغیر)، والضبطِ (الجمع لجمیع افراد المعرَّف)، وہو إنما یحصلُ بلفظ کلٍّ۔ (نور الانوار:۱۸)
[۲] وعَلیہا (أي الظئرِ) أنْ تُصلحَ طعامَ الصبيِّ۔ ش:لأنَّ العملَ عَلیہا…، أمَّا الطعامُ فعلَی والدِ الولدِ۔ یہاں اوپر والی عبارت میں یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ: جب کھانا تیار کرنا دایہ کی ذمہ داری ہے تو کیا نفسِ طعام کا خرچ بھی اُسی پر ہوگا؟ اِس کا دفعیہ أمَّا الطعامُ…الخ سے کیا ہے۔ (ہدایہ۳؍۳۰۵)
(۲) فائدہ(۱):’’مقسم‘‘ اور ’’قسم‘‘ کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے، اور دو ’’قسیموں ‘‘ کے درمیان تباین کی نسبت ہوتی ہے۔
فائدہ(۲):ایک مقسم کی چند قسمیں آپس میں ’’قسیم‘‘ کہلاتی ہیں ، اور قسیموں -مثلاً اسم، فعل اور حرف- کے درمیان آپس میں تباین کی نسبت ہوتی ہے، کہ اسم کا کوئی فرد فعل وحرف نہ ہوگا، اور فعل کا کوئی فرد اسم وحرف نہ ہوگا۔
فائدہ: یاد رہے ہر دو کلیوں کے درمیان چار نسبتوں (تساوی، تباین، عموم خصوص مطلق، عموم خصوص من وجہ) میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے، اب یہ معلوم کریں کہ مقسم اور اُس کی اقسامِ متعددہ کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے، مثلاً: ’’کلمہ‘‘ (مقسم) کی تین قسمیں ہیں : اسم، فعل اور حرف۔ اب اقسامِ متعددہ کے ہر فرد پر ’’کلمہ‘‘ کا اطلاق ہوگا،مثلاًیہ کہا جائے: اسم وہ کلمہ ہے…، فعل وہ کلمہ ہے…، الخ؛ لیکن مقسم (کلمہ) کے ہر ہر فردیعنی اسم، فعل، حرف پرکسی دوسری قسم پر مثلاً ’’اسم‘‘ ہونا صادق نہ آئے گا؛ لہٰذا یہ نہ کہا جائے کہ: فعل وہ اسم ہے جو…، یا فعل وہ حرف ہے جو…۔ گویا ہر اسم کلمہ تو ضرور ہوگا؛ لیکن ہر کلمہ کے لیے اسم ہونا ضروری نہیں ہیں ۔ غ