Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

168 - 214
استینافیہ وارد ہوگا، جو اِس بات پر دال ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والی عبارت کسی سوالِ مقدر کا جواب ہے۔ وَتَقْرِیْرُہ ُ أَنَّ ہٰذِہِ القَاعِدَۃَ أَوِ التَّعْرِیْفَ لِمَ قُیِّدَ  بِہٰذا القَیْدِ؟ وَ مَاحُکْمُ صُورَۃٍ غَیْرِ مُقَیَّدَۃٍ بِہٰذالقَیْدِ؟ أمَّا…(۱)۔
	قاعدہ۲۰): ہر وہ فاء جو کسی مقسم کے اقسام کو بیان کرنے کے بعد کسی قسم کی تعریف پر واقع ہو تو وہ  فاء  تفسیریہ ہوگی۔
	قاعدہ۲۱): مقسم اور اقسام کے درمیان شارحین اسمِ عدد کالفظ بڑھاتے ہیں ، جیسے: الکَلِمَۃُ [ثَلاَثَۃُ اَقْسَامٍ]: اِسْمٌ وَ فِعْلٌ وَحَرْفٌ، جس سے مقصود مصنف پر ہونے والے اعتراض  کو رفع کرنا ہوتا ہے،کہ حمل الاقسام علیٰ المقسم(۲)کی صورت میں حَمْلُ الخَاصِّ عَلیٰ 
                                              
	(۱) جیسے:[۱] م: أما الخاصُّ فکلُّ لفظٍ وضعَ لمعنی معلومٍ علی الانفراد یعنی خاص وہ لفظ ہے جو انفرادی طور پر متعین معنیٰ کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ اِس تعریف میں شارح، ماتنِ علام کے لفظِ کل کو استعمال فرمانے پر ہونے والے نقض اور جواب کو تحریر فرماتے ہیں : ((وأمّا ذکرُ)) کلمۃِ ’’کلٍ‘‘ فإنہٗ ((وإنْ کان مستنکراً في التعریفاتِ منشائِ اعتراض)) في اصطلاح المنطق؛ ولٰکن القصد ہٰہنا لبیان الإطراد (المنع عن دخول الغیر)، والضبطِ (الجمع لجمیع افراد المعرَّف)، وہو إنما یحصلُ بلفظ کلٍّ۔ (نور الانوار:۱۸) 
	[۲] وعَلیہا (أي الظئرِ) أنْ تُصلحَ طعامَ الصبيِّ۔ ش:لأنَّ العملَ عَلیہا…، أمَّا الطعامُ فعلَی والدِ الولدِ۔ یہاں اوپر والی عبارت میں یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ: جب کھانا تیار کرنا دایہ کی ذمہ داری ہے تو کیا نفسِ طعام کا خرچ بھی اُسی پر ہوگا؟ اِس کا دفعیہ أمَّا الطعامُ…الخ سے کیا ہے۔ (ہدایہ۳؍۳۰۵)
	(۲) فائدہ(۱):’’مقسم‘‘ اور ’’قسم‘‘ کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے، اور دو ’’قسیموں ‘‘ کے درمیان تباین کی نسبت ہوتی ہے۔
	فائدہ(۲):ایک مقسم کی چند قسمیں آپس میں ’’قسیم‘‘ کہلاتی ہیں ، اور قسیموں -مثلاً اسم، فعل اور حرف- کے درمیان آپس میں تباین کی نسبت ہوتی ہے، کہ اسم کا کوئی فرد فعل وحرف نہ ہوگا، اور فعل کا کوئی فرد اسم وحرف نہ ہوگا۔
	فائدہ: یاد رہے ہر دو کلیوں کے درمیان چار نسبتوں (تساوی، تباین، عموم خصوص مطلق، عموم خصوص من وجہ) میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے، اب یہ معلوم کریں کہ مقسم اور اُس کی اقسامِ متعددہ کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے، مثلاً: ’’کلمہ‘‘ (مقسم) کی تین قسمیں ہیں : اسم، فعل اور حرف۔ اب اقسامِ متعددہ کے ہر فرد پر ’’کلمہ‘‘ کا اطلاق ہوگا،مثلاًیہ کہا جائے: اسم وہ کلمہ ہے…، فعل وہ کلمہ ہے…، الخ؛ لیکن مقسم (کلمہ) کے ہر ہر فردیعنی اسم، فعل، حرف پرکسی دوسری قسم پر مثلاً ’’اسم‘‘ ہونا صادق نہ آئے گا؛ لہٰذا یہ نہ کہا جائے کہ: فعل وہ اسم ہے جو…، یا فعل وہ حرف ہے جو…۔ گویا ہر اسم کلمہ تو ضرور ہوگا؛ لیکن ہر کلمہ کے لیے اسم ہونا ضروری نہیں ہیں ۔ 			    غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter