فائدہ: ترکیب میں یہ الفاظ حال واقع ہوتے ہیں ؛ لیکن طالب علم کو چاہیے کہ اِن الفاظ کو دیکھ کر اُن کے موافق ذوالحال کو صحیح کرکے پڑھ لے؛ مگر خود اُن الفاظ کو زبان سے ادا نہ کرے، فَإِنَّہَا بِمَنْزِلَۃِ الاِعْجَام(۱)۔
شرح ملاجامیؒ کے حاشیے پر مولانا مولوی عصام الدین ؒ کلام کی تعریف کے موقع پر فرماتے ہیں : اِنَّمَا عَقَّبَ(الشَّارِحُ) ’’المُتَضَمِّنَ‘‘ بِقَوْلِہٖ ’’اِسْمُ فَاعِلٍ‘‘ مَعَ اَنَّہٗ لاَ یُمْکِنُ إِلاَّ أَنْ یَکُوْنَ اِسْمَ فَاعِلٍ، لِتَخْصِیْصِ الصُّوْرَۃِ الخَطِیَّۃِ بِاسْمِ الفَاعِلِ۔ فَہٰذا بِمَنْزِلَۃِ الاِعْجَامِ۔ فَیَنْبَغِيْ أَنْ یُرَی وَ لاَ یُقْرَأَ، فَاحْفَظْہٗ وَلاَ تَغْفَلْ عَنْہٗ فِي نَظَائِرِہٖ، وَعُدِّہِ مِنْ ہَدَایَانَا وَاجْمَعْہٗ مَعَ عَشَائِرِہ۔ اِنْتَہَی کَلاَُمٗہ(۲) ۔
(۱) الإعجام: أعجم الکتابَ نقطہ اور حرکات لگا کر تفسیر کر کے اِبہام کو دور کرنا، الکلامَ عجمی زبان میں گفتگو کرنا۔مرتب
(۲)پہلے شرح جامی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : م:الکلام ما تضمن کلمتین۔ ش:فالمتضمِّن -اسمَ فاعل- ہو المجموع، والمتضمَّن -اسمَ مفعول- کل واحدۃٍ من کلمتین، فلا یلزم اتحادہما۔ کے حاشیہ پر اِنَّمَا عَقَّبَ الشَّارِحُ الخ۔ (شرح جامی:۴۳)
اولاً اِس عبارت کا پسِ منظر سمجھ لیجیے، ملا جامیؒ نے کلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: الکلام ما تضمن، أي لفظ تضمّن۔ اعتراض ہوتا تھا کہ کلام کی تعریف کی گئی ہے: جو دو کلموں کو متضمن ہو اُس کو کلام کہتے ہیں ، تو اگر کسی کاغذ میں کوئی شخص زیدٌ قائم لکھ دے تو اُس کو بھی کلام کہنا چاہیے؛کیوں کہ یہ دو کلموں کو متضمن ہے۔شارح نے اي لفظ نکال کر اِس کا جواب دیا ہے کہ: کلام لفظ کی قسم ہے، تو جو لفظ دو کلموں کو متضمن ہوگا وہ کلام کہلائے گا، اور کاغذ یادیوار وغیرہ پر جو دو کلمے لکھ دیے جائیں وہ لفظ نہیں ہے۔
قولہ: کلمتین، کلام کی تعریف میں ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ: اِس میں متضمِّن اور متضمَّن کا اتحاد لازم آتا ہے۔ تشریح اِس کی یہ ہے کہ: کلام اُس کو کہتے ہیں جو دو کلموں کو متضمِّن ہو، اور یہ دو کلمے خود کلام ہے، مثلاً زیدٌ قائم کو کلام کہا جائے گا؛ کیوں کہ اِس میں دو کلمے زید، اور قائم پائے جاتے ہیں ؛ حالاں کہ یہ دو کلمے خود کلام ہے؟ اِس کا جواب شارح نے دیا ہے کہ: دو کلموں کا مجموعہ تو متضمِّن ہے اور اِن میں سے ہر واحد علاحدہ علاحدہ متضمَّن ہے؛ لہٰذا دونوں متحد نہ ہوئے۔
الحاصل! حضرت مولانا عصام الدینؒ فرماتے ہیں : حضرت العلام ملا جامیؒ نے جب رسم الخط سے لفظ ’’مُتَضَمِّنٌ‘‘ کے اسم فاعل ہونے کو طے کردیا ہے پھر مزید ’’اسم فاعل‘‘ کہہ کر وضاحت کرنا ٹھیک نہیں ؛ کیوں کہ ایسی وضاحت کرنا گویا اُس کلمہ پر حرکات لگانا ہے جو پہلے سے موجود ہے؛ لہٰذا یہ قول کرنا تحصیلِ حاصل ہے۔ بہ ہر حال ملا عصام الدین آگے ناظرین کو فرماتے ہے کہ: ایسے کلمات کی حرکات (ضبطِ کلمہ) ظاہر کرنے والی عبارت دیکھ کر اُس سے فائدہ تو اٹھایا جائے؛ لیکن اُنہیں پڑھا نہ جائے۔